Maktaba Wahhabi

395 - 868
اس کی بیٹی بھی تھی۔ہم لوگوں نے پہلے عمرے کا احرام باندھا کہ بعد میں حج کا احرام باندھیں گے۔جب ہم حرم میں پہنچے تو اللہ کی قدرت،بڑھیا اپنا طواف پورا نہ کر سکی اور پھر صفا و مروہ کی سعی بھی نہیں کی کیونکہ وہ بیمار تھی اور ازدحام بہت زیادہ تھا۔پھر ہم لوگ منیٰ اور عرفات گئے،اور اس بڑھیا نے بھی تمام اعمال حج پورے کیے سوائے طواف وداع کے،اور اس کی بیٹی نے بھی اپنی ماں کی طرح ہی کیا،تو کیا اس کا حج صحیح ہے،یا اس پر کچھ لازم ہے؟ جواب:اس عورت سے جو کچھ ہوا،اس پر کچھ نہیں ہے۔اس سے یہی ہوا ہے کہ اس نے حج کو عمرے پر داخل کر دیا ہے اور اس طرح وہ قران والی ہو گئی اور قران والے کے لیے ایک طواف اور ایک سعی ہی ہے،اور یہ طواف و سعی حج اور عمرے دونوں کے لیے کافی ہے۔اور اس کی بیٹی نے جو اپنی ماں کی طرح کیا ہے تو اس کا حکم بھی اس کی ماں جیسا ہے۔البتہ طواف وداع کرنا ضروری تھا،خواہ اسے گردنوں پر اٹھا کر کرایا جاتا،اور اس طواف میں سعی نہیں ہوئی۔چونکہ ان دونوں نے طواف وداع نہیں کیا ہے تو ان دونوں کے ذمے فدیہ ہے۔ان کی طرف سے مکہ میں قربانی کی جائے جو یہاں کے فقراء میں تقسیم ہو۔(محمد بن صالح عثیمین) حج و عمرے کے اعمال سوال:پہلے پہلے طواف میں حجر اسود کو بوسہ دینے کا کیا حکم ہے؟ جواب:سنت یہ ہے کہ حجر اسود پر بھیڑ نہ کی جائے،اور بالخصوص عورتوں کے لیے تو یہ مسنون نہیں ہے،جس طرح کہ رمل ہے (یعنی پہلے طواف کے پہلے تین چکروں میں آہستہ آہستہ دوڑنا) یہ عورتوں کے لیے نہیں ہے۔عورتوں کو بیت اللہ سے دور رہنا چاہیے۔ قریب نہیں آنا چاہیے۔ کیونکہ عورت سراسر پردہ ہے،اور حجر سود کے بوسے میں مردوں سے دھکم پیل ہوتی ہے،اور عورت کے لیے پردہ کرنا ایک لازمی عمل ہے اور اس کے مقابلے میں حجر اسود کو بوسہ دینا یا رمل کرنا یہ مندوب ہے (یعنی اگر کر لیا جائے تو جائز اور ثواب ہے ورنہ کچھ نہیں ہے)۔(محمد بن ابراہیم) سوال:عورت کے لیے مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ جواب:اگر ازدحام اور بھیڑ ہو تو اس کا حکم حجر اسود کو بوسہ دینے جیسا ہے (جیسے کہ اوپر بیان ہوا)۔چونکہ عورت سراسر پردہ ہے،اس لیے اسے بچنا چاہیے ۔اور علامہ ابن رشد نے لکھا ہے کہ "یہ عمل عورت کے حق میں بالاجماع مندوب و مستحب نہیں ہے۔" مگر مجھے اس اجماع کی حقیقت کا علم نہیں ہے۔البتہ ائمہ کرام یہی لکھتے ہیں کہ "عورت مردوں کے ساتھ بھیڑ نہ کرے۔" تو اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ عورت حجر اسود کو بوسہ دے سکتی ہے،بشرطیکہ جب طواف کرنے والی عورتیں ہی ہوں یا ازدحام نہ ہو۔اور علامہ ابن رشد نے جو لکھا ہے تو وہ کم از
Flag Counter