Maktaba Wahhabi

62 - 868
اور راجح یہ ہے کہ یہ الفاظ جب اکٹھے ذکر ہوں تو ان میں فرق ہوتا ہے جیسے کہ بیان ہوا۔اور اگر علیحدہ علیحدہ ذکر ہوں تو ان کا مفہوم ایک ہی ہوتا ہے۔واللہ اعلم (محمد بن صالح عثیمین) قضاء و قدر پر ایمان سوال:قضاء و قدر پر ایمان کسی مسلمان کے ایمان میں اضافے میں کس طرح معاون ہو سکتے ہیں؟ جواب:قضاء و قدر پر ایمان ایک مسلمان کے لیے اس کے دینی و دنیاوی امور میں بہت بڑے معاون ہوتے ہیں کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہر قدرت سے فائق اور اس پر غالب ہے۔اور اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کا ارادہ فرما لیتا ہے تو اس کے ورسے کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی۔اس ایمان و یقین کے بعد ایک مسلمان اپنے مقصد کے لیے لازمی اور ضروری اسباب اختیار کرتا ہے (اور پھر جو ہونا ہوتا ہے ہو جاتا ہے) اور ہمیں اپنی تاریخ میں بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں کہ مسلمانوں کو مناسب گنتی اور معیاری قوت کے بغیر ہی کم تعداد اور معمولی صلاحیت کے ساتھ بڑی بڑی فتوحات حاصل ہوئیں اور یہ سب اللہ رب العٰلمین کے وعدوں پر یقین اور قضاء و قدر پر ایمان کا نتیجہ تھا اور یہ کہ تمام امور اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔(محمد بن صالح عثیمین) اسباب کی حیثیت سوال:اسباب کا سہارا لینا کیسا ہے؟ جواب:اسباب کا سہارا لینا کئی طرح سے ہے: پہلی قسم:۔۔یہ ہے کہ انسان کوئی سبب اختیار کرے مگر صرف ظاہری طور پر سبب کی حیثیت سے اپنے عمل میں لائے مگر حقیقی اور اصلی اعتماد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ پر ہو اور اس کا یقین یہی ہو کہ یہ سبب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔اگر اللہ چاہے تو اس سبب کو بھی کاٹ سکتا ہے،اور اگر چاہے تو اسے باقی رہنے دے،اور اللہ تعالیٰ کی مشیت میں اس سبب کا کوئی اثر نہیں ہے۔اس انداز سے سبب اختیار کرنا نہ اصل توحید کے خلاف ہے نہ کمال توحید کے منافی۔ دوسری قسم:۔۔سراسر توحید کے خلاف ہے۔وہ یہ کہ انسان کوئی سبب اختیار کرے اور پھر ہر اعتبار سے اس ہی پر تکیہ کر لے،اسی کی تاثیر کا یقین رکھے اور اللہ عزوجل کو بھول جائے کہ اس کی بھی کوئی تقدیر ہے۔مثلا:جیسے کہ ہمارے ہاں قبر پرست ہیں کہ جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کسی صاحب قبر کی طرف بھاگتے ہیں،یہ شرک اکبر ہے،ملت اسلام سے نکالنے کا باعث ہے،اور اس کا حکم وہی ہے جو اللہ عزوجل نے بیان فرمایا ہے: إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ
Flag Counter