Maktaba Wahhabi

569 - 868
"بچہ بستر والے کاہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔" [1] سو جس آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہوں،اور پھر وہ اس سے ملاپ کرے،اس اعتقاد سے کہ طلاق نہیں ہوئی،یہ عمل جہالت سے کیا ہو یا کسی مفتی کے غلط فتویٰ کی وجہ سے،اور شوہر نے اسے صحیح سمجھا ہو،یا کوئی اور بھی سبب ہو،تو بچہ اس آدمی ہی سے لاحق ہو گا،یہ دونوں آپس میں وارث بھی ہوں گے۔اور یہ عورت اپنی عدت اسی وقت سے شمار کرے گی جب وہ آدمی اس سے مباشرت ترک کرے گا،کیونکہ اس کا مباشرت کرنا اسی یقین کے تحت ہے کہ یہ عورت اس کی بیوی ہے،تو یہ اس کا فراش ہوئی،لہذا یہ اسی وقت سے عدت گزارے گی جب اس آدمی کے بستر سے علیحدہ ہو گی۔(امام ابن تیمیہ) سوال:میری ایک عورت سے شادی ہوئی ہے،مگر اس کے بھائی مجھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ میں اسے طلاق دے دوں۔اگر میں اسے طلاق دے دوں تو کیا اسے میرے ہاں عدت گزارنا ہو گی؟ جواب:آپ کو چاہیے کہ اسے کہیں کہ خلع کرا لے۔یعنی یہ تب ہوتا ہے جب عورت اپنے شوہر سے علیحدگی چاہتی ہو،تو وہ کچھ ادا کر کے اپنے آپ کو آزاد اکرا لیتی ہے۔لیکن اگر اس نے کہا کہ مجھے طلاق دے دو،اور آپ نے کہہ دیا کہ تجھے طلاق ہے،تو اس طرح اس نے آپ سے اپنے تمام حقوق محفوظ کرا لیے ہیں۔(محمد بن عبدالمقصود) سوال:اگر عورت کو طلاق بتہ ہوئی ہو تو کیا وہ اس گھر میں رہ سکتی ہے جہاں اس کے بچے رہتے ہوں؟ جواب:اسے وہاں رہنا جائز ہے،بشرطیکہ طلاق دینے والا شوہر اس سے علیحدہ رہے۔اگر ان میں علیحدگی کی کیفیت حاصل رہے تو اسے وہاں رہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(محمد بن ابراہیم) مسائل عدت سوال:ایک عورت حمل سے تھی،چھٹے مہینے میں اور پھر نویں مہینے میں جنین نے کچھ حرکت کی،پھر کوئی حرکت نہیں کی،اور اس دوران میں شوہر نے اسے طلاق دے دی اور اب تقریبا اس کے دعوائے حمل کو چار سال ہو رہے ہیں،تو کیا یہ نکاح کر سکتی ہے،اور اس کے نفقہ کا کیا حکم ہے؟ جواب:عدت والی عورتیں کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ان میں سے ایک حمل والی بھی ہے اوراس کی عدت شوہر کی موت وغیرہ کی صورت میں بالکل وہی ہے جو طلاق یا فسخ کی صورت میں ہوتی ہے۔اللہ عزوجل کافرمان ہے کہ:
Flag Counter