Maktaba Wahhabi

61 - 868
نہ تو ان میں اس دیوار کے اوپر چڑھنے کی طاقت ہے اور نہ اس میں کوئی سوراخ کر سکتے ہیں۔کہا:یہ سب میرے رب کی مہربانی ہے۔ہاں۔ جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو اسے زمین بوس کر دے گا،بیشک میرے رب کا وعدہ سچا اور حق ہے۔" پھر صحیح احادیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:"قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام سے کہے گا:اے آدم!اٹھ اور اپنی اولاد میں سے جو جہنمی ہیں انہیں کھڑا کر" ۔۔۔یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تمہیں خوشخبری ہو کہ تم میں سے کوئی ایک ہو گا اور یاجوج و ماجوج میں سے ایک ہزار ہوں گے۔"[1] یاجوج وماجوج کا نکلنا علامات قیامت میں سے ہے،جس کے ابتدائی اثرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور ہی میں ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے۔چنانچہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے گھبرائے ہوئے تشریف لائے،آپ کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور آپ فرما رہے تھے:لا الٰہ الا اللہ،افسوس ہے عرب کے لیے اس شر سے جو قریب آ گیا ہے،آج یاجوج و ماجوج کی دیوار اس قدر کھل گئی ہے،اور آپ نے اپنے انگوٹھے اور ساتھ کی انگلی سے حلقہ بنا کے دکھایا۔"[2] (محمد بن صالح عثیمین) قضاء و قدر سوال:قضا اور قدر میں کیا فرق ہے؟ جواب:قضا و قدر کی تعریف میں علماء کا کچھ اختلاف ہے۔بعض کہتے ہیں کہ قدر سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ ارادہ اور اندازہ ہے جو کسی چیز کے متعلق اس نے ازل میں فرمایا ہوتا ہے اور قضا سے مراد وہ حکم اور آخری فیصلہ ہے جو اس چیز کے ظہور و وقوع کے وقت دیا جاتا ہے۔تو جب اللہ نے کسی خاص وقت میں کسی چیز کے ہونے اور بنانے کا ارادہ اور اندازہ فرمایا ہو تو یہ "قدر اور تقدیر" ہے اور جب اس چیز کے ہونے کا وقت آ جاتا ہے تو یہ قضا ہے۔اور یہ بیان قرآن کریم میں بہت زیادہ ہے،مثلا قُضِيَ الْأَمْرُ (یوسف:12؍41) (معاملے کا فیصلہ کر دیا گیا) اور وَاللّٰهُ يَقْضِي بِالْحَقِّ (المومن:40؍20) (اللہ تعالیٰ حق کے ساتھ فیصلے کرتا ہے) وغیرہ۔الغرض قدر سے مراد ازل میں کیا گیا ارادہ اور اندازہ ہے۔اور قضا سے مراد اس کے ظہور کے وقت کا فیصلہ ہے۔ بعض نے کہا کہ ان دونوں کے ایک ہی معنیٰ و مفہوم ہیں۔
Flag Counter