Maktaba Wahhabi

314 - 868
میرے علم میں قرآن و حدیث میں ایسی کوئی قابل اعتماد دلیل نہیں ہے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ اسے ماں باپ یا دوسروں کے لیے بخشا جا سکتا ہے۔بلکہ آپ علیہ السلام کا فرمان ہے: "جس نے کوئی ایسا عمل کیا،جس کے متعلق ہمارا کوئی ارشاد نہ تھا تو وہ مردود ہے۔" [1] اگرچہ اہل علم کی ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ قرآن کریم پڑھ کر بخشنا جائز ہے،اس طرح اور بھی کچھ اعمال صالحہ میتوں یا دوسروں کو بخشے جا سکتے ہیں،اور وہ اسے دعا اور صدقہ پر قیاس کرتے ہیں،مگر مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں پہلا قول ہی صحیح ہے (کہ اس کا بخشنا جائز نہیں ہے)۔کیونکہ اگر تلاوت قرآن کا ہدیہ کرنا اور بخشنا جائز ہوتا تو سلف صالحین (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام) ضرور اس پر عمل کرتے۔ اور عبادات کے مسئلہ میں قیاس کرنا صحیح نہیں ہے،کیونکہ عبادت سراسر توفیقی عمل ہے،اس کے لیے قرآن کریم یا نبی علیہ السلام کی صریح نص ہونی چاہیے جیسے کہ اوپر کی حدیث میں واضح آیا ہے۔ اور یہ مسئلہ کہ میت کی طرف سے صدقہ کیا جاتا ہے،اس کے لیے دعا کی جاتی ہے،دوسرے کی طرف سے حج اور عمرہ کرنا،اور میت کے ذمے داروں کا ادا کرنا،یہ سب ایسی عبادتیں ہیں کہ ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بالکل صحیح ہیں۔جس کی طرف سے حج و عمرہ کیا جا رہا ہے وہ یا تو فوت ہو چکا ہو،یا انتہائی بوڑھا ہو،یا ایسا مرض ہو کہ اس کے شفایاب ہونے کی امید نہ ہو۔واللّٰه ولی التوفیق (عبدالعزیز بن باز) زیارت قبور سوال:درج ذیل مسائل میں شریعت اسلامی کی رو سے ہماری رہنمائی فرمائیں کہ کچھ لوگ قبروں کی زیارت کے لیے جاتے ہیں،اور فوت شدہ بزرگوں کے لیے واسطے وسیلے سے دعائیں کرتے ہیں اور کچھ وہاں بکرے،مینڈھے نذر کرتے ہیں،جیسے کہ سید بدوی،شیخ حسن یا سیدہ زینب کی قبروں پر کیا جاتا ہے؟ جواب:زیارت قبور کی کئی صورتیں ہیں: (1)۔۔۔ایک تو مشروع اور مطلوب ہے کہ آدمی قبرستان جائے،اموات کے لیے دعا کرے،کہ خود اسے موت یاد آئے اور بندہ آخرت کی تیاری کرے۔اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ "قبروں کی زیارت کے لیے جایا کرو،بلاشبہ اس سے تمہیں آخرت یاد آئے گی۔" [2] اور آپ علیہ السلام اور صحابہ کا یہ معمول بھی تھا۔
Flag Counter