Maktaba Wahhabi

446 - 868
آداب نکاح سوال:نکاح کے اعلان کی غرض سے اگر عورتیں دف بجائیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ جواب:نکاح کے اعلان اور شہرت کی غرض سے عورتوں کا دف بجانا مستحب ہے۔مگر ضروری ہے کہ عمل صرف عورتوں کے اندر ہو،اس کے ساتھ کوئی اورموسیقی یا آلات لہو اور گانے بجانے والیوں کی آوازیں نہ ہوں۔اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اس مناسبت سے کچھ شعر پڑھ لیں،مگر اس طرح کہ مردوں تک آواز نہ جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:"نکاح میں حلال اور حرام کے درمیان فرق دف اور آواز ہی کا ہے۔"[1] علامہ شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار میں لکھتے ہیں:"اس میں دلیل ہے کہ نکاح کے مواقع پر دف بجا لینا اور اشعار وغیرہ پڑھ لینا جائز ہے مثلا (جیسے کہ احادیث میں آیا ہے) ' اتيناكم اتيناكم ' وغیرہ۔نہ وہ گانے جو شر و فساد کے جذبات کو برانگیختہ کرتے ہیں،جن میں عورتوں کے حسن و جمال،شراب و شباب اور بے حیائی کا تذکرہ ہوتا ہے یہ چیزیں جیسے دوسرے مواقع پر حرام ہیں،نکاح میں بھی حرام ہیں۔ایسے ہی دوسرے گانے بجانے وغیرہ بھی۔(صالح فوزان) سوال:ہمارے ہاں بعض علاقوں میں ایسے ہوتا ہے کہ جب کوئی نوجوان کسی خاندان میں نکاح کا پیغام دیتا ہے تو لڑکی کا والد بیش قیمت مہر کی شرط رکھتا ہے،اور پھر جب نکاح ہو جاتا ہے تو لڑکی اس کے شوہر کے ساتھ بھیجنے سے انکار کر دیتا ہے،اور مطالبہ کرتا ہے کہ لڑکا اس باپ کی خدمت کرے۔اس طرح لڑکی بھی انتہائی اذیت میں پڑتی ہے۔تو کیا لڑکی کو اپنے شوہر کے گھر چلے جانا چاہیے یا باپ ہی کے گھر رہے؟ اس قسم کے بہت سے واقعات سے بڑی مشکلات دیکھنے میں آتی ہیں۔آنجناب سے گزارش ہے کہ لوگوں کو ان امور میں حق و صواب کی رہنمائی فرمائیں۔ جواب:اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کے لیے مشروع فرمایا ہے کہ بیٹیوں کے مہروں میں تخفیف اور میانہ روی اپنائیں اور اسی طرح ولیموں کا معاملہ ہے،تاکہ ہر فریق آسانی اور سہولت کے ساتھ شادی کا مرحلہ طے کر لے،اور خیر کے اس کام میں ایک دوسرے کو تعاون ملے،نوجوان اور دوشیزائیں عفیف اور پاک دامن رہیں۔ ہم نے اس موضوع پر نصیحت،خیرخواہی اور تواصی بالحق کے جذبے سے کئی بار لکھا ہے اور ہیئۃ کبار العلماء کی جانب سے بھی کئی قراردادیں اور نشریے شائع کیے گئے ہیں،ان کا موضوع و مضمون یہی تھا کہ نکاحوں میں مہر کم رکھے جائیں،ولیموں میں تکلف نہ کیا جائے اور عوام کو ترغیب و تشویق دی گئی ہے کہ نوجوان کے لیے نکاح کا
Flag Counter