Maktaba Wahhabi

66 - 868
"اور ہرگز ہرگز کسی کام کے متعلق یوں نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا،مگر ساتھ ہی ان شاءاللہ کہہ لینا۔" جو امور ماضی میں ہو چکے ہوں ان کو اللہ کی مشیت کے ساتھ بیان نہ کیا جائے،سوائے اس کے کہ اس کی علت اور سبب بیان کرنا مقصود ہو۔مثلا:اگر آپ کو کوئی یوں بتائے کہ اس سال رمضان اتوار کی شام کو شروع ہوا تھا ان شاءاللہ،تو یہاں ان شاءاللہ کہنے کی ضرورت نہیں،کیونکہ یہ کام ہو چکا اور ہر ایک کو اس کا علم ہے۔یا مثلا:کوئی کہے،میں نے اپنے یہ کپڑے پہنے،ان شاءاللہ۔تو اس طرح کی باتوں کو اللہ کی مشیت کے ساتھ ملا کر بیان کرنا درست نہیں ہے،کیونکہ یہ کام ہو چکے ہیں۔لیکن اگر علت و سبب بیان کرنا چاہے تو درست ہو سکتا ہے۔مثلا کہے:اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ میں نے یہ کپڑے پہن لیے ۔۔تو یہ درست ہے۔ اگر کوئی شخص نماز پڑھ لینے کے بعد کہے کہ:میں نے نماز پڑھی ان شاءاللہ ۔۔اگر نماز کا عمل بتانا چاہتا ہے تو ان شاءاللہ کہنا درست نہیں۔اور اگر یہ مقصد ہو کہ میری یہ نماز قبول و مقبول ہو گی تو ان شاءاللہ کہنا درست ہو گا۔کیونکہ نماز کی قبولیت یا عدم قبولیت کا انسان کو کوئی علم نہیں۔(محمد بن صالح عثیمین) نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کعبہ کی قسم اٹھانا ممنوع ہے سوال:نبی علیہ السلام کے نام کی قسم اٹھانا یا کعبہ کی قسم اٹھانا کیسا ہے،اسی طرح بعض لوگ اپنے شرف اور ذمہ کی بھی قسم اٹھا لیتے ہیں اور کئی کہتے ہیں:"یہ بات میرے ذمے رہی"؟ جواب:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی قسم اٹھانا جائز نہیں ہے،نہ ہی کعبہ کی،کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور کعبہ دونوں ہی اللہ کی مخلوق ہیں اور کسی مخلوق کی قسم اٹھانا شرک کی ایک قسم ہے۔ اسی طرح اپنے شرف اور ذمہ کی قسم بھی درست نہیں ہے۔کیونکہ نبی علیہ السلام کا فرمان ہے: ((مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللّٰهِ فَقَدْ كَفَرَ،أَوْ أَشْرَكَ)) [1] "جس نے اللہ کے علاوہ کی قسم اٹھائی اس نے کفر کیا یا اللہ کے ساتھ شرک کیا۔" اور یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: ((لاتَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ،فَمَنْ كانَ حالِفاً؛ فَلْيَحْلِفْ باللّٰه،وإلا فَلْيَصْمُتْ)) [2] "اپنے آباء و اجداد کی قسمیں مت کھایا کرو،جس نے قسم کھانی ہو وہ اللہ کے نام کی اٹھائے یا خاموش رہے۔"
Flag Counter