Maktaba Wahhabi

407 - 868
احرام کے دوران میں ایام شروع ہو جائیں اور خون آنے لگے سوال:ایک عورت سفر حج کے لیے روانہ ہوئی،اور پانچ دن بعد ایام مخصوصہ شروع ہو گئے،میقات پر پہنچ کر اس نے غسل کیا اور احرام کی نیت کر لی۔مکہ پہنچی تواسی کیفیت میں تھی،لہذا حرم سے باہر رہی اور حج و عمرہ کا کوئی عمل نہیں کیا۔پھر منیٰ گئی،وہاں پاک ہو گئی اور اعمال حج و عمرہ بحالت طہر اد اکیے۔اور پھر جب یہ طواف افاضہ کر رہی تھی کہ اسی دوران میں خون شروع ہو گیا،اور بہ تقاضائے حیا اس نے کچھ نہیں بتایا،اور اعمال حج پورے کر لیے۔اپنے شہر پہنچ کر اس نے اپنی کیفیت کا بتایا ہے،تو اب اس کا کیا حکم ہے؟ جواب:اس معاملے کا حکم یہ ہے کہ طواف افاضہ کے دوران میں جو خون اسے آیا ہے،اگر یہ حیض تھا،جسے یہ اپنی طبیعت اور دردوں وغیرہ کے انداز سے جانتی ہو گی،تو یہ طواف درست نہیں ہوا،اس پر لازم ہے کہ مکہ جائے تاکہ طواف افاضہ کر سکے۔لہذا یہ میقات سے عمرے کا احرام باندھے،طواف،سعی کر کے عمرہ مکمل کرے،اس کے بعد طواف افاضہ کرے۔ اور اگر یہ خون طبعی معروف حیض نہیں تھا،بلکہ پریشانی و ازدحام دیکھ کر گھبراہٹ کی وجہ سے تھا جو بعض اوقات اتفاقا آ جایا کرتا ہے،تو اس کا یہ طواف درست ہے،بالخصوص ان حضرات کے نزدیک جو طواف کے لیے طہارت شرط نہیں کہتے۔ اور پہلی صورت میں اگر اسے دوبارہ مکہ آنا ممکن نہ ہو،مثلا دور کے ملک سے آسان نہیں ہو سکتا ہے،تو اس کا حج (ان شاءاللہ) صحیح ہے،کیونکہ اس نے جو کیا،اس سے زیادہ وہ نہیں کر سکتی ہے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:میں حج کے لیے گئی تو مجھے ماہواری شروع ہو گی،مجھے شرم آئی اور میں نے کسی سے ذکر نہیں کیا،ا ور میں حرم میں جاتی رہی،نمازیں پڑھتی رہی،طواف اور سعی بھی کی۔اب مجھ پر کیا ہے؟ خیال رہے کہ یہ ماہواری مجھے نفاس کے بعد آئی تھی۔ جواب:عورت جب ایام حیض میں ہو یا نفاس میں،اسے نماز پڑھنا حلال نہیں ہے،خواہ وہ مکہ میں ہو یا اپنے شہر میں یا کسی اور جگہ۔کیونکہ نبی علیہ السلام نے عورت کے بارے میں فرمایا ہے کہ: "کیا یہ بات نہیں کہ عورت جب حیض سے ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے نہ روزے رکھتی ہے۔"[1] اور مسلمانوں کا اجماع ہے کہ حائضہ نہ روزے رکھ سکتی ہے نہ نماز پڑھ سکتی ہے۔ لہذا اس عورت سے جو ہوا،اسے چاہیے کہ اللہ سے توبہ کرے اور معافی مانگے۔اس حالت میں جو طواف
Flag Counter