Maktaba Wahhabi

325 - 868
کے بعد دوسری اجنبی عورتیں۔اور اگر شوہر نہ ہو اور محارم اور غیر محارم عورتیں بھی نہ ہوں،حتیٰ کہ اجنبی عورتیں بھی نہ ہوں تو اس صورت میں علماء سے روایات مختلف ہیں۔بعض نے کہا کہ ایسی عورت کو تیمم کرا دیا جائے اور اس پر کفایت کی جائے،اور بعض کا خیال ہے کہ محرم مردوں کے لیے جائز ہے کہ وہ اسے غسل دے سکتے ہیں،بشرطیکہ اس پر پردہ کیا جائے،پانی اوپر سے ڈالا جائے،اور داماد غسل دے تو یہ حرام ہے جبکہ اس کی بیٹی بھی موجود ہو۔اس صورت میں بیٹی پر واجب ہے وہی اسے غسل دے،یا دیگر قرابت دار یا کوئی اور اجنبی عورت،اگر ذوات الارحام میں سے کوئی موجود نہ ہو۔(محمد بن عبدالمقصود) سوال:کیا عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ میت کو غسل اور کفن دے سکے جبکہ وہ خود ایام میں ہو؟ جواب:ہاں جائز ہے۔عورت اگر اپنے ماہانہ ایام میں بھی ہو تو وہ عورت کی میت کو غسل یا کفن دے سکتی ہے۔بلکہ اپنے شوہر کو بھی غسل دے سکتی ہے۔اور اس کا اپنے مخصوص ایام میں ہونا اس کے لیے اس کام سے کوئی شرعی رکاوٹ نہیں ہے۔(مجلس افتاء) میت پر نوحہ اور بین کرنا سوال:کچھ عورتوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی میت والے کے ہاں تعزیت کے لیے آتی ہیں تو چیختی چلاتی اور ہائے وائے کرتی ہیں،خود روتی ہیں اور گھر والوں کو بھی رلاتی ہیں۔کیا ان کا یہ عمل نوحہ میں شمار ہوتا ہے؟ جواب:ہاں،اس کام کے نوحہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والی اور اسے توجہ سے سننے والی پر لعنت فرمائی ہے۔[1] لہذا اس طرح کا کام حلال نہیں ہے۔بلکہ گھر والوں کو جائز نہیں ہے کہ وہ اسے اس طرح کرنے کی اجازت دیں۔بلکہ ان پر لازم ہے کہ اگر وہ ہمیشہ اسی طرح ہی کرتی ہو تو اسے گھر سے باہر نکال دیں۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:میت پر نوحہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ جواب:میت پر نوحہ کرنا حرام ہے،اور اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی کسی میت پر بے صبری کا اظہار کرتے ہوئے اونچی اونچی آواز سے روئے،ہائے وائے پکارے،کپڑے پھاڑے،رخسارے پیٹے،بال نوچے،منہ کالا کرے یا نوچے وغیرہ۔یہ سب اعمال نوحہ کہلاتے ہیں،جن میں اللہ کی تقدیر اور اس کے فیصلوں پر ناپسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے اور یہ حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔صحیحین میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ،وَشَقَّ الْجُيُوبَ،وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ)
Flag Counter