Maktaba Wahhabi

416 - 868
کہ یہ ایک رخصت اور رعایت ہے جو شریعت نے دی ہے) اصل حاجی اور اس کے نائب میں صحت مندی،قوت اور صلاحیت کا فرق موجود ہے۔اگر ان اعذار کی وجہ سے مطلقا ان اعمال کے چھوڑنے کی اجازت دے دی جائے تو شاید آدھے حاجی بھی رمی وغیرہ نہ کریں۔بہرحال ان مشکلات سے نکلنے کی راہیں موجود ہیں،مثلا رمی کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کیا جا سکتا ہے جب ازدحام نہ ہو یا بہت کم ہو۔(محمد بن ابراہیم) سوال:کیا میری والدہ کے لیے جائز ہے کہ میرے والد (یعنی اپنے شوہر) کی طرف سے حج کرے؟ خیال رہے کہ میری والدہ اپنا فرضی حج کر چکی ہے۔ جواب:جب آپ کی والدہ اپنا فریضہ حج ادا کر چکی ہیں تو کوئی حرج نہیں کہ وہ آپ کے والد کی طرف سے حج کریں۔[1] (محمد بن ابراہیم) سوال:میری حقیقی بہن ایک مدت ہوئی فوت ہو چکی ہے،اور میں اس کی طرف سے حج و عمرہ اور زیارت قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جانا چاہتی ہوں،تو اس کا کیا حکم ہے؟ جواب:آپ کی بہن اگر شرعی احکام کی مکلف تھی تو آپ کے لیے جائز ہے کہ اس کی طرف سے حج و عمرہ کریں،بشرطیکہ آپ نے اپنا حج و عمرہ کر لیا ہو۔ اور زیارت قبر رسول کا مسئلہ،تو اس کے لیے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ:الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ،وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى،وَمَسْجِدِي هَذَ " "(سفر کے لیے) پالان صرف تین مسجدوں کی طرف کسے جائیں:مسجد حرام،مسجد اقصیٰ اور میری مسجد (مسجد نبوی)۔" [2] لہذا سفر مسجد نبوی کی نیت سے ہونا چاہیے۔ اور پھر انسان جب یہاں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صاحبین پر بھی صلاۃ و سلام پڑھے،اور اس مسجد نبوی کے سفر میں نیابت نہیں ہو سکتی۔(مجلس افتاء) سوال:ایک نوجوان نے بلوغت سے پہلے اپنا حج کیا۔بعد از بلوغت اس کے والد نے اس سے کہا کہ جاؤ اور اپنے دادا کی طرف سے حج کرو۔چنانچہ بچے نے بہ نیت تمتع اپنے دادا کی طرف سے عمرے کا احرام باندھا۔آٹھ
Flag Counter