Maktaba Wahhabi

144 - 868
اس حکم کو گھروں کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی محمول کیا ہے۔ 2۔ دوسرا قول یہ ہے کہ گھروں کے اندر ۔۔قبلہ کی طرف منہ کر لینا یا پشت کر لینا جائز ہے۔ان حضرات کی دلیل جناب ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے "کہتے ہیں کہ میں ایک دن (اپنی ہمشیر) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی چھت پر چڑھا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ شام کی طرف منہ کیے،کعبہ کی طرف پشت کیے قضائے حاجت کر رہے تھے۔"[1] 3۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ گھروں کے اندر یا باہر فضا میں کہیں بھی قبلہ کی طرف نہ منہ کرنا جائز ہے اور نہ پیٹھ کرنا۔ان کا استدلال بھی حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو اوپر ذکر ہوئی ہے۔انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کے کئی جواب دئیے ہیں،مثلا: (ا) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت نہی سے پہلے کے حال پر محمول ہے۔ (ب) نہی کا پہلو راجح اور غالب ہے،کیونکہ نہی اصل جواز سے ناقل ہے اور جو حکم اصل جواز سے ناقل ہو وہ راجح ہوتا ہے۔ (ج) جناب ابوایوب رضی اللہ عنہ کی روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امت کے لیے فرمان ہے،اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں آپ کا ذاتی فعل ہے۔اور ناممکن ہے کہ آپ کے قول اور فعل میں کوئی تعارض ہو۔کیونکہ فعل میں خصوصیت کا احتمال ہوتا ہے،اور نسیان کا احتمال بھی ہے،یا کوئی اور عذر بھی ہو سکتا ہے وغیرہ۔بہرحال میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ: قضائے حاجت کے لیے عام کھلی جگہوں پر قبلہ کی طرف منہ کرنا یا پیٹھ کرنا دونوں حرام ہیں،اور گھروں کے اندر بنے ہوئے بیت الخلا میں پیٹھ کر لینا جائز ہے نہ کہ منہ کر لینا۔کیونکہ رخ کرنے کے متعلق احادیث محفوظ ہیں،ان میں کوئی تخصیص نہیں،اور پشت کرنے کی نہی کی احادیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کے ساتھ مخصوص ہیں۔نیز پشت کر لینے کا عمل منہ کرنے کی نسبت کسی قدر ہلکا بھی ہے۔لہذا،واللہ اعلم،آدمی گھروں کے اندر ہو تو اس میں کچھ تخفیف ہے۔افضل بہرحال یہی ہے کہ حتی الامکان پشت بھی نہ کرے۔[2]۔۔۔[3] (عبداللہ بن جبرین)
Flag Counter