Maktaba Wahhabi

179 - 295
زمانے میں حدیث کے جید عالم مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری رحمہ اللہ اپنے تعلیمی و تدریسی مشاغل سے فارغ ہو کر اپنے وطن مبارک پور میں آ کر گوشہ گیر ہو گئے۔یہ قصبہ میرے آبائی وطن سے دو میل کے فاصلے پر ہے۔میں نے اس کو غنیمت جانا اور ان کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست کی کہ مجھے کچھ دن اپنے فیضِ صحبت سے مستفید ہونے اور حدیث شریف پڑھنے کا موقع عنایت فرمائیں۔ ’’مولانا رحمہ اللہ کو شاید یہ علم تھا کہ میں مدرسۃ الاصلاح کا فارغ التحصیل اور مولانا فراہی کے شاگردوں میں سے ہوں۔انھوں نے فرمایا کہ آپ تو بہت کچھ پڑھ چکے ہیں،اب مزید پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اگر آپ چاہیں تو اپنی سند میں آپ کو دے دوں گا۔مولانا کی طرف سے یہ میری بڑی حوصلہ افزائی تھی،لیکن میرا مقصد حدیث شریف کا علم حاصل کرنا تھانہ کہ صرف سند حاصل کرنا۔میں نے ادب سے گزارش کی کہ میں ایک حقیر طالب علم ہوں،شاہوں کا یہ تاج میں ا پنے سر پر رکھنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔میری آرزو یہ ہے کہ میں آپ سے حدیث سمجھنے کا سلیقہ سیکھوں۔یہ جواب سن کر مولانا نے کچھ دیر توقف کے بعد فرمایا کہ اچھی بات ہے۔آپ کی خواہش یہی ہے تو جو کتاب چاہیں،وہ پڑھا دوں گا۔میں نے کہا: آپ ترمذی کے شارح ہیں،یہی کتاب مجھے پڑھا دیجیے۔یہ درخواست مولانا نے منظور فرمائی اور مزید کرم یہ فرمایا کہ شرح ترمذی کا ایک نسخہ اپنے دستخط سے مزین فرما کر مجھے عنایت کیا۔دوسرے دن سے ترمذی شریف کا درس شروع ہو گیا۔رمضان شریف کا مبارک مہینہ تھا۔میرے گاؤں سے مبارک پور کا فاصلہ دو میل تھا۔روزانہ پیدل چل کر صبح کو مولانا کی خدمت میں حاضر ہوتا اور شام کو پیدل ہی گھر واپس آتا۔رات میں مولانا کی شرح ترمذی کی’’تحفۃ الأحوذي’‘کی روشنی میں ترمذی کا مطالعہ کرتا۔دن میں دو اڑھائی گھنٹے میں قراء ت پر محنت کرتا اور مولانا کے سماع پر میں تو تھک کر چور ہو
Flag Counter