Maktaba Wahhabi

73 - 295
علماے اہلِ حدیث مبارک پور کی تصانیف قبول عام و تام کے مرتبے کو پہنچی ہیں۔امتِ اسلامیہ پر امام ترمذی رحمہ اللہ کا قرض تھا۔مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری رحمہ اللہ نے تحفۃ الاحوذی لکھ کر اسے ادا کر دیا۔ اردو اور عربی زبان میں امام المحدثین اور امیرالمومنین فی الحدیث محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ(المتوفی ۲۵۶ھ)کی سیرت پر کوئی جامع کتاب نہیں لکھی گئی۔مولانا عبد السلام مبارک پوری رحمہ اللہ نے سیرت البخاری لکھ کر اس کمی کو پورا کیا۔ سیرت البخاری کا عربی ترجمہ ڈاکٹر عبد العلیم بن عبد السلام بستوی رحمہ اللہ نے’’سیرۃ البخاري سید الفقہاء و امام المحدثین’‘کے عنوان سے کیا،جس کانقش اول ۱۹۸۶ء میں جامعہ سلفیہ بنارس نے شائع کیا۔ مولانا عبید اللہ رحمانی مبارک پوری رحمہ اللہ نے مشکاۃ المصابیح کی عربی شرح بنام’’مرعاۃ المفاتیح’‘لکھی ہے،جس کی نو جلدیں(کتاب المناسک تک)شائع ہوئی ہیں۔شارح کے انتقال کی وجہ سے یہ شرح مکمل نہیں ہو سکی۔ مبارک پور کا تذکرہ: مورخین اورعلماے کرام نے اپنی کتابوں میں مبارک پور کاتذکرہ کیا ہے۔علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۹۵۳ء)فرماتے ہیں : ’’محمد آبادکے قریب مبارک پور نام کا بڑا قصبہ ہے،جو ہر زمانے سے پارچہ بافی کامرکزہے اور جہاں پچھلے زمانہ میں چندنامور علماء پیداہوئے ہیں۔‘‘(حیات شبلی،ص: ۵۷) استاد محمد حسن ازہری نے اپنی عربی کتاب’’فتی الہند و قصۃ باکستان‘‘(مطبوع قاہرہ)میں مبارک پور کے تجارتی،تمدنی اور معاشرتی حالات لکھے ہیں۔مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے’’تحفۃ الأحوذي’‘جلداول اورمولانا عبد السلام
Flag Counter