Maktaba Wahhabi

116 - 295
آپ کے تلامذہ کا حلقہ وسیع ہے۔مشہور علما میں شمس العلما مولانا حفیظ اللہ مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ(المتوفی۱۳۶۲ھ)،مولانا احمد اللہ محدث پرتاب گڑھی اور مولانا محمد عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ صاحبِ تحفۃالاحوذی(المتوفی ۱۳۵۳ھ)خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ مولانا حبیب الرحمن قاسمی ان کے عادات و خصائل اور ان کا مسلکِ اہلِ حدیث میں متصلب ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’مولانا سلامت اللہ جیراج پوری رحمہ اللہ ترکِ تقلید،آمین بالجہر،رفع الیدین اور قراء ت خلف الامام جیسے مسائل میں بہت متشدد تھے۔بارہا شمس العلما علامہ شبلی نعمانی سے ان مسائل پر مناظرہ بھی کیا۔بایں ہمہ نہایت خلیق اور متواضع اور منکسر المزاج تھے۔ان معنوی خوبیوں کے ساتھ ساتھ قدرت نے حسنِ صورت سے حصہ وافر عطا کیا تھا،جس کی وجہ سے اکثر ہندو آپ کو دیوتا کہتے تھے۔‘‘(تذکرہ علماے اعظم گڑھ،ص: ۹۹) آخر میں مدرسہ سلیمانیہ بھوپال سے ریٹائر ہو گئے اور بھوپال ہی میں سکونت اختیار کر لی تھی۔حکومت بھوپال نے آپ کی پنشن مقرر کر دی تھی۔آخر اس درویش منش عالمِ دین نے ۳۰ ربیع الاول ۱۳۲۲ھ /۱۵ جون ۱۹۰۴ء کو بھوپال میں داعی اجل کو لبیک کہا۔إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون۔عمر ۵۳ سال تھی اور تکیہ محبت خاں میں مدفون ہوئے۔(تراجم علماے حدیث ہند،ص: ۳۸۸) حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری رحمہ اللہ : شیخ الکل حضرت میاں صاحب سید نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۲۰ھ)فرمایا کرتے تھے کہ میرے درس میں دو عبد اللہ آئے ہیں : ایک عبد اللہ غزنوی اور دوسرے عبد اللہ غازی پوری رحمہم اللہ۔ آپ کی ولادت ۱۲۶۰ھ میں قصبہ مئو ضلع اعظم گڑھ میں ہوئی۔تعلیم کا آغاز
Flag Counter