Maktaba Wahhabi

159 - 295
ہے،جو علامہ طحاوی رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن سرجس سے نقل کی ہے کہ ایک شخص آیااور اس نے صف کے پیچھے فجر کی دو سنتیں پڑھیں،پھر جماعت میں مل گیا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے سلام پھیرا تو اس شخص سے کہا: تو نے اپنی کون سی نماز فرض ٹھہرائی؟ آیاوہ نماز جو تونے ہمارے ساتھ پڑھی ہے یا وہ نماز جو تو نے اکیلے جماعت ہوتے ہوئے پڑھی ہے؟ مطلب یہ ہے کہ اگر تو فرض اس کو شمار کرتا ہے،جو ہمارے ساتھ پڑھی ہے تو فرض چھوڑ کو سنت فرض کیوں پڑھتا رہا؟ اگر تونے فرض پہلے سنتوں کو قرار دیا ہے تو پھر ہمارے ساتھ کیوں شریک ہوا؟ مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی فرماتے ہیں : یہ توبیخ و زجر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو اس لیے فرمائی کہ وہ شخص فرض نماز چھوڑ کر سنتِ فجر پڑھتا رہا۔پس مسلمان متبع سنت کے لیے یہ لازم ہے کہ فرض نماز ہوتے ہوئے سنت و نفل کو نہ پڑھے،اگرچہ وہ سنتِ فجر ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ حدیث صریح طور پر ان حنفی بھائیوں پر رد کرتی ہے جو جماعتِ فجر ہوتے ہوئے سنتیں پڑھتے رہتے ہیں اور عذر گناہ بدتر از گناہ کرتے ہیں کہ ہم صف سے علیحدہ پڑھتے ہیں۔لیکن افسوس! میں نے تو آج تک کوئی صریح حدیث ایسی نہیں دیکھی جس میں سنتِ فجر کی تخصیص و تعیین ہو۔‘‘(خاتمہ اختلاف،ص: ۷۸،۷۹) تقلیدِ شخصی: مولانا کھنڈیلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اسلام میں تقلیدِ شخصی کا ہرگز وجود نہیں ہے،بلکہ قرآن مجید نے یہود و نصاریٰ کو احبار و رہبان کی تقلیدِ شخصی اختیار کرنے پر سخت مذمت فرمائی ہے اور فرمایا: {اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہ} [التوبہ: ۳۱]
Flag Counter