Maktaba Wahhabi

79 - 295
مدرسے نے تھوڑے ہی عرصے میں اپنے گرد و نواح میں خاصی شہرت حاصل کر لی تھی اور اتر پردیش(یو،پی)،صوبہ بہار اور دوسرے صوبوں سے شائقینِ علم آ کر تحصیلِ علم کرنے لگے تھے۔مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۳۷ھ)اور مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۳۲۷ھ)جیسے اساطینِ علم و فن اس مدرسے میں تدریس فرما رہے تھے۔مولانا عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ تحصیلِ علم کے لیے اس مدرسے میں تشریف لے گئے۔یاد رہے کہ مولانا مبارک پوری کے والدِ محترم حافظ عبد الرحیم مبارک پوری رحمہ اللہ بھی اسی مدرسے کے فیض یافتہ تھے۔مولانا عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے ان دونوں علماے کرام سے معقولات و منقولات کا درس لیا۔ مولانا حبیب الرحمن قاسمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’مولانا عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ مدرسہ چشمۂ رحمت تشریف لے گئے،جو ان دنوں مشرقی یو پی کا مشہور علمی و دینی ادارہ تھا اور اس میں وقت کے مشاہیر اساتذہ درس دیتے تھے۔بالخصوص مولانا حافظ عبد اللہ مئوی(غازی پوری رحمہ اللہ)کے علومِ دینیہ اور مولانامحمد فاروق چڑیا کوٹی رحمہ اللہ کے علومِ عقلیہ و ادبیہ کا چشمۂ فیض پوری توانائیوں کے ساتھ جاری تھا۔مولانامبارک پوری رحمہ اللہ نے ان دونوں حضرات سے متوسطات اور منتہیٰ کتابیں پڑھیں اور یہیں صرف،نحو،ادب،عربیت،معانی،بیان،منطق،فلسفہ،ریاضی،ہیئت،فقہ،اصول،حدیث اور تفسیر وغیرہ مروجہ علوم و فنون کی تکمیل کی۔اس مدرسہ میں آپ پانچ سال تک زیرِ تعلیم رہے۔‘‘(تذکرہ علماے اعظم گڑھ،ص: ۱۴۳) مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کی خدمت میں : ۱۲۵۸ھ میں حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمہ اللہ(المتوفی ۱۲۶۲ھ)ہجرت کر کے مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور ان کے جانشین حضرت مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ ہوئے۔
Flag Counter