Maktaba Wahhabi

36 - 295
’’یعنی جولوگ اس وقت موجود ہیں،وہ ان لوگوں تک ان احکام کو پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں۔’‘اسی کا نام روایتِ حدیث ہے۔ مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’عہدِ رسالت سے لے کر بعد کے ہر دور میں حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل و روایت کا سلسلہ جاری رہا۔یہ حدیثیں پوری دنیائے اسلام میں بکھری ہوئی تھیں۔محدثین کرام رحمہم اللہ کا یہ بڑااحسان ہے کہ انھوں نے اس زمانہ میں جب کہ سفر کی سہولتیں نہ تھیں اور سفرہم معنی سقر سمجھا جاتا تھا اور نہ نشر و اشاعت کے موجودہ سامان تھے،تعلیم بھی محدود تھی،دنیائے اسلام کا چپہ چپہ چھان کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال یعنی حدیث و سنت کو تحقیق و صحت کے پورے اہتمام کے ساتھ جمع و مرتب کیا اور ان کے رد و قبول اور صحت و سقم کو جانچنے اور رواۃ کی جرح و تعدیل کے اصول بنائے۔اصولِ حدیث کا مستقل فن ایجاد کیا۔ہزاروں راویانِ حدیث کے حالات نہایت صحت اورتحقیق کے ساتھ قلم بند کیے،جو مسلمانوں کا بڑا قابلِ قدر کارنامہ ہے۔‘‘(تذکرۃ المحدثین: ۱/۸) تدوینِ حدیث: حضرت عمر بن عبد العزیز اموی رحمہ اللہ صفر ۹۹ھ میں منصبِ خلافت پرفائز ہوئے،جن کی ذات سر تا پا اسلام کی اعجاز تھی اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک نشانی تھی۔انھوں نے دیکھا کہ روافض،خوارج اورقدریہ وغیرہ نئے نئے فرقے سر اٹھا رہے ہیں،اس لیے حدیث و سنت کے باقاعدہ تدوین کی ضرورت ہے۔اگر انھوں نے اس طرف توجہ نہ کی ہوتی تو علمِ حدیث کا یہ ذخیرہ وجود میں نہ آتا،لیکن انھوں نے دیکھا کہ انقضائے زمانہ کے ساتھ علما کا گروہ روز بروز مٹتا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ
Flag Counter