نہیں ہوتی۔ اسی طرح قلب و روح کا مریض توحید خالص کا شہد و شکر بھی حلق سے نیچے اتار نہیں سکتا۔ اسے اللہ کی یہ عظیم و لطیف نعمت بھی نامانوس ناگوار اور بد ذائقہ ہی محسوس ہوتی ہے۔ دل و دماغ پر اہل بدعت و الہوا کا تسلط جاہلانہ نظریات و افکار کی فرمانروائی ذہنی توازن بھی برقرار نہیں رہنے دیتی، ایسے مریض اپنے لائق طبیب اور قابل معالج کو بھی کاٹ کھانے کو آتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ علمائے حق کے خلاف فضا ایسی مسموم کرائی جاتی ہے کہ ان کا قافیہ حیات تنگ ہو جاتا ہے۔ ان پر قاتلانہ حملے کرائے جاتے ہیں ، اپنے تندو تیز فتووں سے ان کے عقائد و اعمال پر جی کھول کر دھول اڑائی جاتی ہے اور وہابی کا لفظ کہہ کر تو اہل حق کا امت مسلمہ سے پتہ ہی کاٹ دیا جاتا ہے اور دنیا بھر کی برائیاں اس میں سمٹ آتی ہیں ۔ وہابیت کا خطاب کچھ ایسا خطرناک ہے کہ کسی ہندو دکاندار پر جب شہر کے امام صاحب نے یہ الزام لگا دیا تھا، تو عوام نے اس سے سودا خریدنا بند کر دیا۔
آپ ان روحانی مریضوں کو کتاب و سنت کا آئینہ دکھانے کی جسارت یا گستاخی جب بھی کریں گے ممکن نہیں کہ آپ اپنی عزت اور جان کو محفوظ پا سکیں ۔ یہ اس آئینہ کو بدصورت حبشی کی طرح پٹخ سکتے ہیں اور دکھانے والے کو وہابی اور لا مذہب کہہ سکتے ہیں ، لیکن اپنے چہرۂ حیات کی اصلاح و درستگی اور اپنے جبین اخلاق کے داغ دھبے صاف کرنے کی سعی نہیں کریں گے، کیونکہ یہ قلبی مریض ہیں اور مریض کے ہوش و حواس متوازن کب ہوتے ہیں لیکن ایک حکیم اور مبلغ کا کام اپنی اصلاحی مہم سے ہٹ جانا نہیں بلکہ اسے صبر و استقامت کے ساتھ مصروف عمل رہنا چاہیے۔ مذکورہ آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اہل کتاب کے ارباب علم و زہد چند ٹکٹوں کے عوض احکام الٰہی کو تبدیل کر کے عوام کو گمراہ کرتے ہیں اور اس عیاری سے روزی پیدا کرتے ہیں اور مسلمانوں میں بھی یہ وبا پھیل چکی ہے جب فتاویٰ اور زہد و تقویٰ مارکیٹ میں تلنے لگیں تو پھر ایسے علماء مشائخ سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے، اور وہ ہر گز اس قابل نہیں رہتے کہ ان کی کسی بات کو دہرایا جائے، مذہبی تجارت میں شریک ہو جانے کے بعد پھر ان سے کسی ہدایت و بھلائی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ علماء و مشائخ اور
|