ہے، اکل اموال بالباطل کی کوئی صورت بھی حتیٰ الامکان ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دی جاتی۔
یہ عجیب بات ہوگی کہ: ناجائز ذرائع سے لوگوں کا مال کھانے والے احبار یہود تو مردود قرار دیے جائیں لیکن وہی مشغلہ اور وہی معیار زندگی احبار مسلمین اپنا لیں تو مرحوم و مغفور، میزان فطرت میں تو دونوں کے جرائم اور دونوں کی گمراہی ایک ہی دزن اور ایک ہی حکم رکھتی ہے۔ حالانکہ بدعت کی ٹہنیوں سے چمٹی ہوئی انسان نما گدھوں کی خوراک ہی صدقات و خیرات اوساخ الناس اور باطل ذرائع سے حاصل ہونے والی روزی ہے رزق حلال اور اکل طیب ان کے مقسوم میں ہے ہی نہیں ۔ اسی لیے ان کی تاریک خیالی سیاہ قلبی تنگ نظری اور کوتاہ اندیشی مشہور ہے۔
علم و حکمت زاید ازنان حلال
عشق و رقت آید ازنان حلال
رزق حرام سے پلنے والوں کی تو خود اپنی عبادت مقبول نہیں ، وہ دوسروں کی نجات یا مغفرت یا ذریعہ ثواب رسانی کیونکر بن سکتے ہیں ۔ مذہبی شعائر و رسوم کی ادائیگی اگر معاوضات کی ترازو میں ہی تولی جائے تو دین میں اخلاص کی روح باقی نہیں رہتی۔ احبار و علماء کے ذوق و مزاج کو جب دنیوی طمع کی چاٹ لگ جائے تو پھر اس کا اثر عوام پر بھی برا ہی پڑتا ہے۔ پھٹے ہوئے دل، پریشان دماغ توہمات میں الجھے ہوئے عقائد جہالت کی تاروں میں اٹکے ہوئے افکار اور مادی لالچ کے دلال میں پھنسے ہوئے قدم کسی اخلاقی اور روحانی بلندی پاکیزہ نفسی اور اخلاص وللہیت کی بلند منازل کی طرف بڑھ ہی نہیں سکتے۔ مادیات کے جال میں پھنسی ہوئی زندگی روحانی لطافت کے بلند آسمانوں میں پرواز نہیں کر سکتی، اور نہ ہی عالم اخلاص کے سرور و لطف سے آشنا ہو سکتی ہے۔ باہمی اخوت و ہمدردی اخلاص ایثار قلب و نظر کا اتحاد و یگانگت اور اخلاق عالیہ کا ظہور و نمود ایسے لوگوں کی زندگی سے ہر گز نہیں ہو سکتا۔ جنہوں نے دینی علم و عمل کو مادی منفعت کے ترازو میں ہر وقت اٹھا رکھا ہو۔ دین فروش ضمیر بکف اور بدعت پسند حضرات کسی قوم میں اتحاد فکر و عمل کی روح ہر گز نہیں پھونک سکتے۔ ان میں اخلاقی
|