کا آخری منہج ہے۔ جلب زر، حصول متاع، نفس و ہوا کے مفرطانہ جذبات کی تکمیل اور تقویٰ و تقدس حاصل کرنے کا نمائشی جذبہ اور وہ بھی غیر مسنون راہوں سے یہی اہل بدعات کا آخری نصب العین ہے۔ ثواب و نیکی کا کوئی کام کیجئے، جب تک مذاہبی دکانداروں کے سامنے نذرانہ ادا نہیں کریں گے، کسی بھلائی و ثواب کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ تمام مذہبی اعمال و رسوم کے لیے باقاعدہ رقوم مقرر ہیں ، نذرانہ وصول کیے بغیر نہ نکاح پڑھائیں گے نہ جنازہ، پھر مردوں کو بخشوانے اور ثواب پہنچانے کے بہانے حیلہ اسقاط ختم دسواں چالیسواں وغیرہ ہر رسم کی ادائیگی میں کچھ نہ کچھ پیشہ ور ملاؤں کے سامنے ادا کرنا ہی پڑتا ہے، اور اس کے بدلے نہ میت کو کچھ فائدہ پہنچتا ہے اور نہ زندوں کو کچھ حاصل۔ میت کو اس لیے کہ غیر مسنون طریقوں سے کوئی خیرات انہیں فائدہ نہیں پہنچاتی۔ بیرگ ہو کر اکارت گئی، زندوں کو بے حاصلی ظاہر ہے۔ یہی باطل طریقے سے روزی حاصل کرنے کا معنی ہے کہ بغیر کسی روحانی یا مادی فائدہ پہنچائے عوام کا مال ہتھیایا جائے۔ جس میں فریق ثانی کی رضا مندی بھی نہیں ہوتی۔ بغیر معاوضہ نہ کسی محفل وعظ و ارشاد میں شریک ہوں گے، نہ کسی کو فتویٰ لکھ کر دیں گے بلکہ آج کل تو یہ وبا بھی عام ہو گئی ہے، ان کے فتویٰ کو جو زیادہ سے زیادہ فیس ادا کرتا ہے ان کا قلم اتنا اس کے پیچھے پیچھے حلت و حرمت کا پروانہ لے کر گھومتا رہتا ہے۔ ابھی ایک مسئلہ حرام تھا پانچ روپے کے عوض، لیکن دس روپے ادا کرنے والے کے لیے وہی بات حلال ہو گئی۔ حیلہ گری کی نوک کمال کو رُخ بدلتے دیر نہیں لگتی ؎
چہ ملائی چہ درویش چہ سلطانی چہ دربانی
فروغ کار مے جوید بہ سالوسی وزراقی
ان کی شرعی تشریحات و تاویلات ان کی دستار مبارک کے پیچ و خم کی طرح ہر نئی قوت ہر عظیم شخصیت اور ہر بڑی فیس کے ساتھ اپنی تحقیق و اجتہاد کا رنگ بدلتی رہتی ہیں ۔ ان کے دارالافتاء سے مداری کے پٹارے کی طرح ہر ذوق ہر محفل اور ہر دور کے بدلتے ہوئے تقاضوں اور مختلف حالتوں کے مطابق تاویلات اور حیل کی شعبدہ گریوں کا تماشہ دیکھا جا سکتا
|