عیاشی اپنے تمام سازوں اور سازندوں کے ساتھ تعلیم گاہوں میں فاتحانہ داخل ہو رہی ہے۔ زاغ شاہینوں کو جیسا کہ کچھ سکھائیں گے اس سے کون نا واقف ہے۔ معصوم ذہنوں کو ابتدا ہی سے اس تاریخی زہر کی چاٹ لگائی جا رہی ہے۔ جس نے ستاروں پر کمند ڈالنے والی ہمتوں اور مصائب و حوادث کے سیلاب میں ابھرنے والی طاقتوں کو ہمیشہ خاک عبرت میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اس قسم کے ڈراموں سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں فخر و کمال اور عزت و ترقی کے سر بستہ راز صرف ساز اور آواز کی دھوم میں کھل سکتے ہیں ، دشمن سرحدوں پر للکار رہا ہو تو سارنگیوں طبلوں ، مزا میروں اور اکسٹرا کے زیر و بم سے اسے اڑایا جا سکتا ہے، اور سحر طراز موسیقی کے ساتھ دلفریب رقص اس کے ہوش و حواس گم کر سکتے ہیں ۔ کہا جا سکتا ہے کہ اب:
ڈھونڈ لی قوم نے فلاں کی راہ
ثقافت کی شورہ زار زمین سے مفکر مدبر محقق دیدہ و رنکتہ رس اور جوانمرد قسم کے انقلاب آفرین لوگ کب پیدا ہوئے ہیں ۔ بلکہ اس سے تو ہمیشہ بھانڈ گوئیے مراثی عیش پرست اور نکمے ہی لوگ بڑھے اور پھولے ہیں اور قوم کو جانبازوں اور مجاہدوں کی ضرورت ہے جن کے عزم و ہمت کی جولانیاں ستاروں سے آنکھ مچولی کریں ۔ اسے ثقافتی سپوتوں جیسے تہذیب مغربی کا دودھ پینے والوں کی ضرورت نہیں ۔ اسے خون چھڑکنے والے ان نونہالوں کی ضرورت ہے جو دنیا میں رسول مدنی کی تہذیب و اخلاق کا بول بالا کریں ۔
کیا ہمارے سکولوں اور کالجوں میں فلم ایکٹروں اور طوائفوں کے رقص اور گانے طالب علموں کے سامنے علم و تحقیق، یا کسی فنی خوبی و کمال کا کوئی باب کھولتے ہیں ؟ بجز اس کے کہ ان کے ذہن و اخلاق کو مسموم کیا جائے، اور قوم کے نونہال ان کی نقالی میں اپنی تخلیقی قوتوں اور تعمیری صلاحیتوں کو ضائع کر بیٹھیں ، یہ تو ان اخلاقی برائیوں کا تذکرہ تھا جو ان اجتماعات میں پھیلائی جاتی ہیں ۔ ایمان و عقائد کے بارے میں ہم ان اشعار و افکار کا ذکر کر چکے ہیں جن کا اظہار ان مقامات پر پہنچ کر کیا جاتا ہے۔ غیراللہ کے آگے سجدوں کی ٹریننگ یہیں پر مجاور لوگ دیتے ہیں قبر کے ارد گرد کئی صندوقچیاں رکھی ہوتی ہیں عوام کے جیب و داماں ہلکے کرنے کے
|