Maktaba Wahhabi

763 - 868
تدابیر میں سے ہے جن کے ذریعے سے افراداور معاشرہ فتنہ و فساد اور فحش کاری سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔یہ وہ خرابیاں ہیں جو افرادکی عفت و پاک دامنی اور طہارت کو تار تار کر دیتی ہیں،اور نہ ہلاکت ان کا لازمی انجام ہوا کرتا ہے۔(عبداللہ بن فوزان) سوال:میں نے ایک واقعہ سنا ہے کہ نبی علیہ السلام کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے آپ سے سلام کیا۔اس موقعہ پر آپ نے اس عورت کے ہاتھ کو کھردرا سا پایا اور فرمایا:"کیا یہ ہاتھ مرد کا ہے یا عورت کا؟" جواب:یہ قصہ کسی جاہل کا من گھڑت اور وضع کردہ ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھ دیا ہے۔بالخصوص عورتوں سے مصافحہ کے مسئلہ میں اس کا کہیں کوئی وجود نہیں ہے۔جبکہ اس کے مقابلہ میں صحیح طور پر یہ ثابت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: "اللہ کی قسم!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی کسی (اجنبی) عورت کا ہاتھ نہیں چھوا،نہ بیعت کے لیے نہ کسی اور کام سے۔" [1] جبکہ آپ معصوم بھی تھے اور بیعت میں مصافحہ کی ضرورت بھی ہوتی ہے،مگر آپ علیہ السلام نے عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا۔چنانچہ آپ علیہ السلام کا یہ کام نہ کرنا،جبکہ آپ معصوم ہیں،اور یہ موقع اس (مصافحہ) کا متقاضی بھی ہے،اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کام دوسروں کے لیے حرام ہے۔اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو معجم طبرانی میں بسند جید حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لَأَنْ يُطْعَنَ فِي رَأْسِ أَحَدِكُمْ بِمِخْيَطٍ مِنْ حَدِيدٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمَسَّ امْرَأَةً لَا تَحِلُّ لَهُ " "تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی کوئی سوئی چبھو دی جائے،یہ اس کے لیے کہیں بہتر ہے کہ وہ کسی اجنبی عورت کو ہاتھ لگائے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔" [2] آپ ایسے لوگوں کی باتوں سے محتاط رہیں جنہیں دین کا کچھ علم نہیں اور اجنبی عورتوں سے ہاتھ ملانے سے پرہیز کریں۔اور یہ بھی خیال رہے کہ اس حدیث میں "مس" (ہاتھ لگانے) کا مفہوم مباشرت اور جماع نہیں ہے۔لغوی طور پر اس لفظ کا ترجمہ "جلد کا جلد کے ساتھ لگنا اور چھو جانا" ہے۔اور اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ
Flag Counter