Maktaba Wahhabi

762 - 868
"تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی سوئی گھونپ دی جائے،یہ اس کے لیے اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ کسی غیر عورت کو چھوئے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔"[1] (محمد بن عبدالمقصود) سوال:اگر کوئی دستانے پہن کر کسی اجنبی مرد سے مصافحہ کرے تب بھی وہ گناہ گار ہو گی؟ جواب:عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ غیر محرم اجنبی مردوں سے مصافحہ کرے خواہ اس نے دستانے ہی پہن رکھے ہوں یا وہ اپنی چادر اور عبا کے پیچھے یا کسی اور حائل سے مصافحہ کرے،یہ سب مصافحہ ہی ہے۔(عبداللہ بن الجبرین) سوال:اسلام نے عورتوں کے لیے غیر محرموں سے مصافحہ کرنا کیوں حرام ٹھہرایا ہے؟ جواب:آدمی کسی اجنبی عورت کے جسم کو چھوئے،اس میں بہت بڑا فتنہ ہے،اسی لیے اسلام نے اسے حرام ٹھہرایا ہے۔اور ہر وہ عمل جو کسی فتنے کا باعث ہو سکتا ہو،صاحب شریعت نے اس سے منع فرما دیا ہے۔اسی وجہ سے مردوں عورتوں کو اپنی نظریں جھکائے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے،تاکہ فتنہ و فساد سے بچاؤ رہے۔(عبداللہ بن الجبرین) سوال:کیا مرد کے لیے جائز ہے کہ اجنبی عورت کے کسی حصے کو چھوئے؟ جواب:بعض کمزور ایمان عورتیں زرگروں وغیرہ کے سامنے اپنے ہاتھ ظاہر کرنے سے پرہیز نہیں کرتی ہیں،کہ وہ چوڑی یا انگوٹھی وغیرہ کا سائز اور حجم لے لے۔یا وہ مرد عورتوں کے ہاتھوں سے زیور اتارنے یا پہنانے کے بہانے ان کے ہاتھ اور بازو چھوتے ہیں (اور یہ بھی اپنے ہاتھ پیش کر دیتی ہیں)۔یہ سب حرام کام ہیں۔مرد کے لیے قطعا جائز نہیں ہے کہ اجنبی عورت کے جسم کو ہاتھ لگائے۔اور اسی طرح یہ عورت بھی اللہ اوراس کے رسول کی نافرمان بنتی ہے۔ان میں ہر ایک کو اس سے توبہ کرنی چاہیے ۔سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لَأَنْ يُطْعَنَ فِي رَأْسِ أَحَدِكُمْ بِمِخْيَطٍ مِنْ حَدِيدٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمَسَّ امْرَأَةً لَا تَحِلُّ لَهُ " "تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی کوئی سوئی چبھو دی جائے،یہ اس کے لیے کہیں بہتر ہے کہ وہ کسی اجنبی عورت کو ہاتھ لگائے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔"[2] اگر عورت اس عمل میں اس مرد کے ساتھ معاون ہے تو وہ بھی اس کے گناہ میں برابر کی شریک اور حصہ دار ہے۔محض آنکھ سے دیکھ لینے کے مقابلے میں جسم کا جسم سے مس ہونا بہت زیادہ لذت کا باعث ہوتا ہے،اس سے صنفی جذبات بہت زیادہ بیدار ہوتے ہیں۔اور اسلام کا کسی اجنبیہ کے جسم کو چھونا حرام قرار دینا،ان حفاظتی
Flag Counter