Maktaba Wahhabi

740 - 868
اور یہ بھی ثابت ہے کہ: (مَنْ زَادَ أَوْ اسْتَزَادَ فَقَدْ أَرْبَى) [1] "جس نے زیادہ دیا یا زیادہ طلب کیا،اس نے سود کا معاملہ کیا۔" احادیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ آپ کے پاس عمدہ کھجور لائی گئی تو آپ نے اس کے متعلق دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا کہ:"ہم اس کے ایک صاع کے بدلے دو صاع کھجور دیتے ہیں یا تین صاع۔" تب آپ نے حکم دیا کہ یہ سودا واپس کیا جائے اور فرمایا:"یہ عین سود ہے۔" اور پھر ارشاد فرمایا کہ "گھٹیا کھجور دراہم (روپوں) میں فروخت کریں،پھر ان سے نئی کھجور خریدیں۔"[2] ان احادیث سے ثابت ہوا کہ سونے کو سونے سے تبدیل کرنا اور پھر اس پر بنوائی کی اضافی اجرت لینا،یہ حرام اور ناجائز ہے اوراس ممنوعہ سود میں داخل ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ اس میں درست طریقہ یہ ہے کہ مستعمل اور مکسور سونا علیحدہ سے بیچا جائے،پہلے سے کوئی پروگرام طے نہ کیا گیا ہو۔جب اس کا مالک اپنی رقم وصول کر لے تب یہ نئی چیز خرید کرے اور اس سے بھی افضل یہ ہے کہ وہ اپنی مطلوبہ چیز کسی اور دکان سے تلاش کرے۔اگر کہیں اور نہ ملے تب پہلے دکاندار کے پاس آ کر مطلوبہ چیز خرید لے۔اب اگر دکاندار مزید بھی لیتا ہے تو جائز ہے۔الغرض سونے کا تبادلہ سونے کے ساتھ،فرق کی قیمت ادا کر کے نہیں ہونا چاہیے کہ یہ بنوائی کی اجرت ہے۔یہ سونے کے تاجر کی بات ہے۔اور اگر وہ زیورات تیار کرنے والا سنار ہو تو اسے چاہیے کہ کہے کہ یہ لو میرا سونا،اس سے مجھے میرا مطلوبہ زیور بنا دو،میں تمہیں اس کی محبت اور بنوائی دوں گا،اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(محمد بن صالح عثیمین) الحمدللّٰه الذى بنعمته تتم الصالحات و صلى اللّٰه تعالى على النبى محمد و على آله وصحبه أجمعين۔ العبد الفقير الى رحمة رب العالمين ابو عمار عمر فاروق بن عبدالعزيز السعيدى عفا اللّٰه عنه ومن آباءه و مشائخه اجمعين جامع ریاض الاسلام، منڈی وار برٹن 27؍06؍1428ھ 12؍07؍2007م
Flag Counter