Maktaba Wahhabi

729 - 868
سوال:کیا حائضہ عورت کے لیے جائز ہے کہ مسجد میں تعلیم و ذکر کے حلقہ میں حاضر ہو سکے؟ جواب:حائضہ عورت کے لیے مسجد میں ٹھہرنا اور رکنا جائز نہیں ہے۔البتہ اگر گزرنا پڑے تو گزر سکتی ہے بشرطیکہ مسجد کے آلودہ ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔سو جب عورت کے لیے مسجد میں رکنا اور ٹھہرنا جائز نہیں ہے تو مسجد میں حلقہ ذکر و سماع اور قراءت قرآن وغیرہ کے لیے تو بالکل نہیں جا سکتی۔ہاں اگر وہاں کوئی علیحدہ جگہ ہو جہاں لاوڈ سپیکر وغیرہ کے ذریعے سے آواز آتی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔کیونکہ عورت کے لیے ان ایام میں قرآن کریم یا درس وغیرہ سننے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔اور احادیث میں ثابت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایام سے ہوتی تھیں اور آپ علیہ السلام ان کی گود کا سہارا لے لیتے اور قرآن کریم پڑھا کرتے تھے۔[1] عورت کا مسجد میں اس غرض سے جانا کہ وہاں درس سنے اور قرآن پڑھنے وغیرہ کے لیے بیٹھے تو یہ جائز نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے ایام شروع ہو گئے ہیں تو آپ نے کہا:"کیا یہ ہمیں روکنے والی ہے؟" آپ کا خیال تھا کہ انہوں نے طواف افاضہ (دس ذوالحجہ کا طواف) نہیں کیا ہے۔مگر آپ کو بتایا گیا کہ انہوں نے طواف افاضہ کر لیاہے (تو انہیں بھی روانہ ہونے کی اجازت دے دی اور خود بھی روانہ ہو گئے)۔" [2] تو یہ دلیل ہے کہ عورت ایام حیض میں مسجد میں عبادت یا غیر عبادت کے لیے نہیں رک سکتی ہے۔علاوہ ازیں یہ بھی ثابت ہے کہ عید کے موقعہ پر آپ نے عورتوں کو حکم دیا کہ نماز اور ذکر میں شمولیت کے لیے عید گاہ کی طرف نکلیں،مگر ایام والیوں سے فرمایا کہ نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:کیا حائضہ عورت کے لیے جائز ہے کہ مسجد حرام میں بیٹھ کر درس وغیرہ سن سکے؟ جواب:مسجد حرام بلاشبہ تمام مساجد سے بڑھ کر افضل مسجد ہے،اور نبی علیہ السلام نے جب ایام والیوں کو عیدگاہ میں نماز کی جگہ سے علیحدہ رہنے کا حکم دیا ہے۔[3] جبکہ وہاں لوگ صرف نماز عید ہی پڑھتے ہیں تو مسجد حرام کے متعلق
Flag Counter