Maktaba Wahhabi

710 - 868
جواب:جائز ہے،کیونکہ مقصد بالوں کا دور کرنا ہے،خواہ وہ نوچنے سے ہو یا مونڈنے وغیرہ سے۔تاہم نوچنا اور اکھیڑنا اگر آسان ہو تو افضل ہے،کیونکہ آپ علیہ السلام کے فرمان میں ایسے ہی ہے: " الفِطْرَةُ خَمسٌ:الخِتَانُ،وَقَصُّ الشَّارِبِ وَتَقْلِيمُ الأَظْفارِ ونَتْفُ الإِبْطِ وَحَلْقُ الْعَانَةِ " "اعمال فطرت پانچ ہیں:ختنہ کرنا،مونچھیں تراشنا،ناخن تراشنا،بغلوں کے بال اکھیڑنا،اور زیر ناف کے مونڈنا۔" [1] (مجلس افتاء) سوال:کیا بغلوں کے بال مردوں یا عورتوں کو مونڈنا جائز ہیں،جبکہ ان کے اکھیڑنے اور نوچنے میں تکلیف ہوتی ہو یا جسم کی حرارت اور حساسیت بڑھ جاتی ہو؟ جواب:(اے خاتون!) آپ کو علم ہونا چاہیے کہ بغلوں کے بال "نوچنا یا اکھیڑنا" ہی شرعی سنت اور بالاجماع مستحب عمل ہے۔لیکن اگر کوئی اکھیڑ نہ سکتا ہو تو اسے جائز ہے کہ مونڈ لے یا بال صفا کریم سے صاف کر لے۔اور راضی ہو اللہ تعالیٰ امام شافعی رحمہ اللہ سے کہ یونس بن عبدالاعلیٰ ان کے پاس آئے جبکہ حجام ان کی بغلیں صاف کر رہا تھا،تو امام صاحب نے فرمایا "سنت تو یہی ہے کہ انہیں اکھیڑا جائے مگر میں اس کی ہمت نہیں پاتا ہوں۔" الغرض انہیں اکھیڑنا اور نوچنا سنت مستحبہ ہے۔صحیحین میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: " خَمْسٌ مِنَ الفِطْرَةِ:الاسْتِحْدادُ وَالخِتَانُ۔ وَقَصُّ الشَّارِبِ ونَتْفُ الإِبْطِ وَتَقْلِيمُ الأَظْفارِ " "پانچ چیزیں اعمال فطرت ہیں:بلیڈ استعمال کرنا (زیر ناف کے لیے)،ختنہ کرانا،مونچھیں کتروانا،بغلوں کے بال نوچنا،اور ناخن تراشنا۔"[2]
Flag Counter