Maktaba Wahhabi

571 - 868
اور اس کی تائید اس حکمت سے بھی ہوتی ہے جس کے تحت حاملہ کو وضع حمل سے عدت پوری کرنے کا حکم دیا گیا ہے،یعنی دونوں شہروں کے نطفے مختلط نہ ہو جائیں اور کہیں بچے کے نسب میں کوئی شبہ نہ آ جائے،جو اس صورت مسئولہ میں نہیں ہے۔اور مجھے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسی عورت سے عدت بالکل ساقط ہے جیسے کہ باقی احکام میراث،استحقاق وصیت اور نفقہ وغیرہ ساقط ہو جائیں گے۔واللہ اعلم۔(عبدالرحمٰن السعدی) سوال:اگر کوئی عورت ایک دو سال تک اپنے شوہر کی نافرمان اور اس سے بے رغبت رہی ہو اور پھر اسے طلاق ہو جائے،تو کیا اسے عدت گزارنا لازمی ہے جبکہ استبرائے رحم کی مدت اس کی پہلے ہی پوری ہو چکی ہو؟ اور جب عورت کو کسی عوض کے تحت طلاق دی گئی ہو تو کیا وہ بلا عدت آگے نکاح کر سکتی ہے،جبکہ شوہر بھی رجوع نہ کرنا چاہتا ہو؟ جواب:عورت کو جب طلاق ہو تو واجب ہے کہ وہ طلاق کے بعد عدت گزارے،خواہ اسے اپنے شوہر سے علیحدہ رہتے ہوئے لمبی مدت ہی کیوں نہ ہو گئی ہو۔کیونکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ (البقرۃ:2؍228) "اور طلاق دی گئی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔" اور نیز اس لیے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی کو،جب اس نے خلع لیا تھا،حکم دیا تھا کہ (بعد از خلع) ایک حیض سے عدت گزارے۔[1] اور خلع والی کے لیے یہی صحیح ہے کہ وہ اس حدیث کے مطابق بعد از طلاق ایک حیض عدت گزارے اور یہ حدیث مذکورہ ٔبالا آیت کریمہ کو خاص کرنے والی ہے۔اور اگر خلع والی عورت بھی جس نے مال کے عوض طلاق حاصل کی ہو،تین حیض عدت گزارے تو اس میں زیادہ کمال اور زیادہ احتیاط ہے۔نیز وہ اس اختلاف سے بھی بچ رہے گی جس میں بعض علماء کا قول ہے کہ خلع والی عورت بھی تین حیض عدت گزارے اس لیے کہ مذکورہ آیت کریمہ عام ہے۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:جس عورت کا شوہر فوت ہو گیا ہو اس کی عدت کتنی ہے؟ جواب:جس عورت کا شوہر فوت ہو گیا ہو اس کی عدت دوسری عورتوں کی بہ نسبت بہت آسان ہے،کیونکہ یہ عورت دو حال سے خالی نہ ہو گی ایک،یا تو حاملہ ہو گی۔اس صورت میں اس کی عدت وضع حمل ہے۔دوسرے،یا حاملہ نہیں ہو گی۔اس صورت میں اس کی عدت صرف چار ماہ دس دن ہے۔حاملہ کی عدت وضع حمل ہے،خواہ اس کے لیے شوہر کی وفات پر چند گھنٹے ہی گزرے ہوں،بلکہ اگر بالفرض شوہر فوت ہو رہا ہو اور یہ نفاس میں ہو
Flag Counter