Maktaba Wahhabi

563 - 868
رجوع کیا تھا اس طلاق میں جو اس کی باقی رہتی تھی۔مگر آپ کے لیے (سائل سے کہا) کچھ باقی نہیں رہا ہے جس میں آپ اپنی بیوی کی طرف رجوع کر لیں۔ دیگر حضرات کا اعتراض ہے کہ مسند احمد اور ابی داؤد میں مروی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کو مجھ پر لوٹا دیا اور طلاق کو کچھ شمار نہ کیا۔" [1] جبکہ قصد ایک ہے اور الفاظ بظاہر مختلف ہیں،تو اس میں جمع و تطبیق کی جائے گی (یا ترجیح دی جائے گی) اور علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے یہ تطبیق دینے کی کوشش کی ہے کہ "آپ نے بیوی کو لوٹا دیا اور اس انداز طلاق کو درست اور صحیح قرار نہیں دیا،کیونکہ یہ خلاف سنت تھا۔" چنانچہ وہ اس روایت کی تاویل کرتے ہیں۔ مگر پہلی روایت کی کوئی تاویل نہیں ہو سکتی،اور اس طرح سے تطبیق مشکل ہے۔اور ترجیح ان ہی روایات کو ہے جن میں ہے کہ ان کی وہ طلاق شمار کی گئی تھی۔کیونکہ اس کے روایت کرنے والے تعداد میں زیادہ اور حفظ و اتقان میں فائق ہیں۔ الغرض ائمہ اربعہ کے نزدیک اگر کوئی اپنی بیوی کو ایام حیض میں طلاق دے دے تو وہ طلاق شمار ہوتی ہے،جیسے کہ میں نے وضاحت سے بیان کیا ہے۔اور اگر طلاق معلق ہو تو بھی ہو جاتی ہے۔جب صریح طلاق ہو جاتی ہے تو معلق بطریق اولیٰ ہو جاتی ہے۔ بہت سے لوگ طلاق کی قسم اٹھا لیتے ہیں،پھر کہتے ہیں کہ میں غضبناک ہو رہا تھا،تو یہ طلاق بولنے کا سبب بھی تو تجھ ہی میں تھا۔ اگر اس نے یوں کہا ہو "مجھ پر طلاق ہو،تو نہیں نکلے گی۔" یہ حلف یا لفظ چونکہ کوئی زیادہ صریح نہیں ہے،اس میں نیت کی طرف رجوع ہو گا۔اگر وہ کہے کہ میرا مقصد یہی تھا کہ میں اپنے آپ پر لازم کر لوں،یا اسے پابند کروں کہ یوں یوں کرے،تو یہ قسم ہے،اس سے طلاق نہیں ہو گی۔ہاں اگر مشروط ثابت ہو جائے تو طلاق ہو جائے گی۔ تو اس صورت میں یہ ہے کہ اپنی قسم کا کفارہ دینے کے لیے دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا انہیں لباس مہیا کرے۔اگر اس سے بھی عاجز ہو تو تین روزے رکھے۔جمہور کا یہی مذہب ہے،اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسے ہی ترجیح دی ہے۔ اور اگر شوہرنے بحالت غضب اسے طلاق دی ہو،اور غصہ بھی اس قدر ہو کہ اس کی وجہ سے وہ اپنے شعور میں نہ رہا ہو کہ کیا کہہ رہا ہے،تو بالاتفاق طلاق نہیں ہو گی۔کیونکہ مسند احمد،ابوداؤد اور ابن ماجہ میں مروی ہے،
Flag Counter