Maktaba Wahhabi

448 - 868
ایسے صالح بندے جو حق کی بات کہتے اور صبر سے کام لیتے ہوں،ان کی اللہ نے بہت مدح فرمائی ہے: وَالْعَصْرِ﴿١﴾إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ﴿٢﴾إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴿٣﴾(العصر:103؍1۔3) "قسم ہے زمانے کی،بلاشبہ انسان خسارے میں ہے،سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور عمل صالح کیے اور جو ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے اور صبر کی تاکید کرتے ہیں۔" اور یقینا مہر کم کرنے اور ولیموں میں تخفیف کرنے کے معاملے میں لوگوں کا تعاون کرنا اور باتوں کی تلقین و تاکید کرنا اللہ عزوجل کے اس ارشاد میں شامل ہے۔اگر حق مہر کم ہوں اور ولیموں کے تکلفات مختصر ہوں تو اس میں یقینی فائدہ یہی ہو گا کہ شرعی نکاح بہت کثرت سے ہوں گے،بے نکاح لڑکے لڑکیوں کی کثرت میں کمی آئے گی،ان کی نظریں پاکیزہ اور جھکی رہیں گی،عصمتیں محفوظ ہوں گی،فواحش کی راہیں بند ہوں گی اور امت مسلمہ کی گنتی بڑھے گی،جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:"محبت کرنے والی زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے شادیاں کرو،بلاشبہ میں قیامت کے دن تمہاری کثرت سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔"[1] اور ایسے باپ یا بھائی جو نکاح ہو جانے کے بعد اپنی بیٹیوں یا بہنوں کو ان کے شوہروں کے ساتھ روانہ نہیں کرتے اور مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ لڑکا ان کی خدمت کرے،ان کی بھیڑ بکریاں یا اونٹ وغیرہ چرائے،تو یہ ایک بہت برا اور غلط کام ہے،جو کسی صورت جائز نہیں ہے۔بلکہ ولی امر (حاکم) کا فرض ہے کہ ایسے امور میں لوگوں کی مدد کرے جن سے زوجین کے اکٹھے رہنے اور ان کے آپس کے حالات عمدہ اور بہترین ہو سکتے ہیں۔جس طرح کہ اس کے فرائض میں یہ شامل ہے کہ ایسے حالات سے ان لوگوں کو متنبہ کرے اور بچائے جو ان میں فرقت و افتراق کا باعث بن سکتے ہوں،سوائے اس کے کہ کوئی شرعی رکاوٹ ہو۔ اور میں عورتوں اور لڑکیوں کے اولیاء اور سرپرستوں کو تاکید کرتا ہوں کہ اپنی ان لڑکیوں اور عورتوں کی شادیاں ان کے ہم پلہ افراد سے کرنے میں تاخیر نہ کیا کریں،خواہ وہ فقیر ہی کیوں نہ ہوں،بلکہ اس بارے میں ان کی حتی الامکان مدد کریں،اور اللہ کے اس فرمان پر عمل کریں: ﴿ وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴿٣٢﴾(النور:24؍32)
Flag Counter