Maktaba Wahhabi

348 - 868
صحیح ہو گا؟ جواب:ہاں،اگر کوئی حیض یا نفاس والی عورت فجر سے پہلے پاک ہو جاتی ہے اور غسل فجر کے بعد کرتی ہے،تو اسے روزہ رکھنا ہو گا۔اور یہ اس مرد کے مشابہ ہے جسے فجر کے وقت جنابت لاحق ہو،تو اس کا روزہ رکھنا بالکل درست ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (البقرۃ:2؍187) "(اب تمہیں اختیار ہے کہ) ان سے مباشرت کرو اور وہ چیز طلب کرو جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے (یعنی اولاد)،اور کھاؤ اور پیو،یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری،رات کی سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے۔" جب اللہ عزوجل نے میاں بیوی کو طلوع فجر تک صنفی تعلق کی اجازت دی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ غسل طلوع فجر کے بعد ہو گا۔اور احادیث میں بھی ہے،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوصبح ہوتی جبکہ آپ اپنے اہل سے جنابت سے ہوتے اور آپ نے روزہ رکھا ہوا ہوتا،[1] یعنی آپ غسل جنابت طلوع فجر کے بعد ہی کرتے تھے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:کیا مجھے اس حالت میں روزہ رکھنا جائز ہو گا کہ جب کہ میں صبح کو اٹھوں اور جنابت سے ہوں؟ جواب:ہاں،بالکل صحیح ہے،اور اس کی دلیل کتاب اللہ سے یہ ہے: فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ (البقرۃ:2؍187) "(اب تمہیں اختیار ہے کہ) اپنی بیویوں سے مباشرت کر سکتے ہو اور طلب کرو وہ چیز جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے (یعنی اولاد)،اور کھا پی سکتے ہو حتی کہ صبح کی سفید دھاری،رات کی سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے،پھر رات کے لیے روزہ پورا کرو ۔۔" یعنی رات کے وقت میں صبح کی سفید دھاری نمایاں ہونے تک یہ اعمال کیے جا سکتے ہیں،جس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ آدمی صبح کے ابتدائی لمحات میں یقینا جنبی ہی ہو گا۔ اور صحیحین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (بعض اوقات) نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح فجر کے وقت میں اٹھتے تو
Flag Counter