Maktaba Wahhabi

266 - 868
بخاری اور مسلم میں معاذہ رحمہااللہ سے روایت ہے،کہتی ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ ایام والی عورت اپنے روزوں کی قضا دیتی ہے نمازوں کی نہیں؟ تو انہوں نے کہا:کیا تو حروریہ فرقے سے تعلق رکھتی ہے؟ انہوں نے کہا نہیں میں حروریہ نہیں ہوں،لیکن میں وضاحت چاہتی ہوں۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: "ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ عارضہ ہوتا تھا تو ہمیں روزوں کی قضا دینے کا حکم دیا جاتا تھا نمازوں کا نہیں۔"[1] اور یہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان اور رحمت ہے کہ نماز چونکہ روزانہ پانچ بار پڑھی جاتی ہے،اور ایام مخصوصہ بھی بالعموم ہر ماہ آتے ہیں تو اس میں عورتوں کے لیے بڑی مشقت تھی اس لیے نمازوں کی قضا دینا ان سے ساقط کر دیا گیا لیکن روزے چونکہ بار بار نہیں آتے،سال میں صرف ایک بار آتے ہیں اس لیے بحالت حیض تو انہیں ان سے ساقط فرما دیا ہے،اور اس کے بعد قضا دینے کا حکم دیا ہے کیونکہ دینی مصلحت اسی میں تھی۔(مجلس افتاء) سوال:ایک عورت کی ماہانہ عادت میں دو،تین یا چار ایام کا اضافہ ہو گیا،مثلا اس کی سابقہ عادت چھ یا سات دن تھی مگر اب دس گیارہ یا پندرہ دن ہو گئی،اور وہ صرف ایک دن یا ایک رات ہی کے لیے پاک ہوتی ہے اور پھر حیض شروع ہو جاتا ہے،تو کیا یہ غسل کر کے نماز پڑھے یا رکی رہے حتیٰ کہ کامل طور پر پاک ہو۔وجہ یہ ہے کہ اس کی عادت میں تبدیلی آ گئی ہے اور یہ مستحاضہ بھی نہیں ہے۔اس صورت میں شریعت کیا کہتی ہے؟ جواب:اگر بات فی الواقع ایسے ہی ہو جیسے کہ ذکر کی گئی ہے کہ حیض صرف ایک دن یا ایک رات کے لیے رکا ہے تو اسے چاہیے کہ طہر کا جو وقت اسے ملا ہے اس میں نمازیں ادا کرے،جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ: "عورت کو خون اگر خوب سرخ اور کثرت سے آیا ہو تو نماز نہ پڑھے،اور جب ایک ساعت کے لیے بھی طہر دیکھے تو غسل کرے۔"[2] اور یہ بھی روایت ہے کہ "اگر طہر ایک دن سے کم ہو تو اس کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی۔" کیونکہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
Flag Counter