Maktaba Wahhabi

265 - 868
اور ایسے لازمی وسائل اختیار کرنے چاہییں کہ بروقت جاگ کر نماز پڑھ سکے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:حائضہ عورت کے لیے نماز روزے کا کیا حکم ہے؟ جواب:عورت کے لیے ان ایام مخصوصہ میں نماز روزہ ادا کرنا حرام ہے،اگر وہ ادا کرے بھی تو صحیح نہیں ہوں گے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: "أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ؟" "کیا یہ نہیں کہ عورت جب حائضہ ہوتی ہے تو نماز نہیں پڑھ سکتی اور روزے نہیں رکھ سکتی؟"[1] اور جب پاک ہو،طہر شروع ہو اسے اپنے روزوں کی قضا دینی ہو گی،نماز کی نہیں۔ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: "ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ کیفیت لاحق ہوتی تھی تو ہمیں روزوں کی قضا دینے کا حکم دیا جاتا تھا،نماز کا نہیں۔"[2] اور ان دونوں میں فرق اس لیے ہے ۔۔واللہ اعلم ۔۔کہ نماز چونکہ بار بار پڑھی جاتی ہے،تو اس کی قضا دینے میں بڑی مشقت تھی جو روزے میں نہیں ہے۔(صالح فوزان) سوال:ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ عورت اپنے ایام مخصوصہ میں نماز روزہ ادا نہیں کر سکتی۔ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں اس بارے میں مزید نصوص و اقوال دئیے جائیں جو اطمینان قلب کا باعث ہوں۔ جواب:عورت کو چاہیے کہ اپنے ایام مخصوصہ میں نماز اور روزے چھوڑ دے،اور جب طہر شروع ہو (پاک ہو جائے) تو رمضان کے جتنے دنوں کے روزے اس نے چھوڑے ہوں ان کی قضا دے،لیکن نماز کی نہیں۔کیونکہ صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ناقص الدین ہونے کے بیان میں فرمایا تھا: "اليست احدا كن اذا حاضت لا تصوم و لا تصل " "کیا یہ بات نہیں کہ تم میں سے ایک جب ایام سے ہوتی ہے تو نہ روزے رکھتی ہے اور نہ نماز پڑھتی ہے۔" [3]
Flag Counter