Maktaba Wahhabi

156 - 868
ہے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کے بارے میں فرمایا ہے کہ "السِّوَاكُ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ،مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ" "مسواک منہ کی صفائی اور رب جل و علا کی رضا مندی کا سبب ہے۔" (سنن النسائی،کتاب الطھارۃ،باب الترغیب فی السواک،حدیث:5 و مسند احمد بن حنبل:6؍74،مسند عائشہ رضی اللّٰه عنہا۔) اور یہ دلیل ہے کہ جب بھی ضرورت محسوس ہو منہ کو مسواک سے صاف کر لیا جائے۔اور علماء کا کہنا ہے کہ جب بھی منہ کا ذائقہ وغیرہ بدل جائے تو مسواک کا استعمال کرنا تاکیدی ہو جاتا ہے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال: وضو کرتے وقت صابن سے منہ ہاتھ دھونا کیسا ہےَ جواب: وضو کے وقت منہ ہاتھ کو صابن سے دھونا کوئی شرعی عمل نہیں ہے۔بلکہ (اگر کوئی اس کا اہتمام کرتا ہے) تو تکلف اور دشواری میں پڑتا اور غلو کا مرتکب ہوتا ہے۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا ہے: هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ "تکلف اور دشواری میں پڑنے والے ہلاک ہوئے۔تکلف اور دشواری میں پڑنے والے ہلاک ہوئے۔" [1] آپ نے یہ تین بار فرمایا۔ہاں اگر اعضاء میلے ہوں اور صابن یا دیگر اشیائے نظافت استعمال کرنے کی ضرورت ہو تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔مگر بطور عادت اسے اپنا لینا تکلف اور بدعت ہے،لہذا اس سے بچا جائے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:بدرَو (گندی نجس نالیوں) کا پانی بعض تحلیلات اور کیمیائی اعمال کے ذریعے سے صاف کیا جاتا ہے اور کھیتوں کو بھی دیا جاتا ہے۔اس پانی کا کیا حکم ہے؟ کیا اس سے وضو ہو سکتا ہے،کپڑے کو لگے تو کیا کپڑا نجس ہو جاتا ہے؟ جواب:نجس پانی جب کیمیائی تحلیل کے ذریعے سے اپنی پہلی حقیقت سے بدل گیا ہے تو اب وہ دوسری حقیقت کا حکم رکھتا ہے۔اور اس وقت تک پلید نہیں ہو گا جب تک کہ نجاست پڑنے سے اس کے تین اوصاف میں سے کسی ایک میں تبدیلی نہ آ جائے یعنی ذائقہ،رنگ اور بو۔ پاک پانی کا اپنا کوئی رنگ،کوئی ذائقہ اور کوئی بو نہیں ہے۔اور حدیث شریف میں ایک اصول بیان کر دیا
Flag Counter