Maktaba Wahhabi

263 - 326
اس نے کہا: ’’وہ شخص غلطی پر ہے جو کہتا ہے کہ ہم کسی حاکم کو معبود سمجھتے ہیں۔‘‘ اس میں اس نے ’’کسی حاکم‘‘ کی بات کی ہے۔ حالانکہ موضوع بحث اس ’’عبیدی حاکم‘‘ کی عبادت اور الوہیت کا دعویٰ ہے جو مصر کا بادشاہ تھا۔ اس شحض نے اللہ کی تمام صفات کا انکار کرکے اسے آئینے میں موجود صورت سے تشبیہ دی اور کہا: ’’اس کو دیکھنے والے کی مثال کیسے ہے جیسے کوئی شخص آئینے میں صورت دیکھتا ہے۔‘‘ اور کہا: ’’جناب امام اکبر صاحب… ہمارا عقیدہ ہے کہ جس طرح ہم آئینے کی طرف دیکھتے ہیں جو تمام کائنات سے مجرد ہوتی ہے۔ اسی طرح ہمیں اللہ کی صورت تمام صفاف سے پا ک نظر آتی ہے۔‘‘ ا س طرح اس نے اللہ تعالیٰ کو ایسی معدوم ہستی بنادیا ہے جس کا کوئی وجودنہیں۔ (۴) شیخ نے کہا: ’’ہم تقمص (تناسخ) پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ ایک قدیم فلسفی مذہب ہے جو فاطمیوں کے ظہور میں آنے سے پہلے بلکہ ظہور اسلام سے بھی پہلے موجود تھا۔ یہ مذہب شروع سے انسانوں کے ساتھ رہا ہے۔ بہت سے قدیم غالی فلسفی بھی اس کے قائل رہے ہیں، اس لئے دروز کا تقمص پر ایمان رکھنا کوئی عجیب بات نہیں۔ عجیب بات تو ہے کہ مسلمان تقمص کا انکار کرتے ہیں حالانکہ قرآن مجید اس کی تائید کرتا ہے۔ اس کے بعد تقمص کے دلائل کے طور یہ دو آیتیں ذکر کی ہیں۔ ارشاد ربانی تعالیٰ ہے: ﴿کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ کُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ﴾ (البقرۃ۲؍۲۸) ’’تم کس طرح اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے تو اس نے تمہیں زندگی دی‘ پھر وہ تمہیں موت دے گا، پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹاے جاؤ گے۔‘‘ دوسری آیت ہے: ﴿مِنْہَا خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْہَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی﴾ (طہ۲۰؍۵۵) ’’اسی سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اوراسی میں تمہیں لوٹا دیں گے اور اسی سے تمہیں دوسری بار نکالیں گے۔‘‘ اور ایک مصنوعی حدیث پیش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مَازِلَتُ أنْتَقِلُ أِلَیْکُمْ مِنْ أَصْلاَبِ الْمُؤمِنِیْنَ أِلَی أَرْحَامِ الْمُؤْمِنَاتِ ِألَی یَوْمِنَا ھٰذا…) ’’میں آج تک مومن مردوں کی پشتوں سے مومن عورتوں کے پیٹوں میں منتقل ہوتا رہا ہوں۔‘‘ یہاں اس درزی طالب علم نے اقرار کیا ہے کہ دروز تقمص یعنی تناسخ ارواح پر یقین رکھتے ہیں۔ اس عقیدہ کا مفہوم ہے کہ جب کوئی زندہ انسان یا حیوان مرتا ہے تو ا سکی روح کسی اور جسم میں منتقل ہوجاتی ہے اور وہ دوسرا انسان یا حیوان پیدا ہوجاتا ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کا یہ عقیدہ وہ وہ عقیدہۂ قیامت پر ایمان نہیں لاسکتے، جس کی صراحت قرآن وحدیث میں موجود ہے اور جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع اور اتفاق ہے۔ وہ جزاوسزا اور حساب وکتاب کے قائل ہیں نہ جنت اور جہنم پر ایمان رکھتے ہیں۔ قرآن وحدیث میں جہاں قیامت کاذکر آیا ہے وہ اس سے امام کا ظہور مراد لیتے ہیں۔ جس طرح دروز کے خیال میں ’’حاکم ‘‘ پوشیدہ ہوجانے کے بعد دوبارہ ظاہر ہوگیا تھا۔ وہ کہتے ہیں
Flag Counter