Maktaba Wahhabi

165 - 326
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز ٭٭٭ فتویٰ (۷۳۷۷) حدیث بداأ الاسلام غریباً کی تشریح سوال گزارش ہے کہ ہمیں اس حدیث کا مطلب سمجھا دیں: (بَدَأَالأِسْلاَمُ غَرِیْباً وَسَیَعُودُ غَرِیباً کَمَا بَدَأً) ’’اسلام شروع ہوا تو اجنبی تھا اور وہ دوبارہ اسی طرح اجنبی ہوجائے گا جس طرح شروع ہوا۔‘‘ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں اسے شان‘ غلبہ اور اقتدار حاصل تھا، دوبارہ حاصل ہوجائے گا، یا کوئی اور مطلب ہے؟ اس حدیث کو بھی پیش نظر رکھیں: (خَیْرُ الْقُرُونِ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُونَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُونَھُمْ ) ’’بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر وہ لوگ جو ان سے ملتے ہیں، پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں‘‘ اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے، وہ سب سے افضل ہے اور بعد میں کبھی کوئی ایسا زمانہ نہیں آسکتا جو اس قدر خیروبرکت کاحامل ہو اور پہلی حدیث میں ’’جس طرح شروع ہوا‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام آخری زمانہ میں اسی طرح ہوگا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا اور مسلمانوں میں باہمی محبت اور اتفاق کادور دورہ ہوگا۔ جب کہ آج کل ہم مسلمانو ں کی یہ حالت دیکھ رہے ہیں کہ وہ آپس میں لڑ رہے ہیں اور افتراق وانتشار کا شکار ہیں۔ حکمران اہل دین پر سختی کرتے ہیں، معاشرہ ان کامذاق اڑاتا ہے اور ان سے برسر پیکار ہیں جو مسلمانوں کے لئے مناسب نہیں، لباس کے ایسے فیشن رائج کر رہے ہیں جن کو اختیار کرکے عورتیں عریانی اختیار کررہی ہیں۔ براہ کرم شافی جواب سے نوازیں، اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے۔ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ آلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اسلام شروع میں ایک اجنبی کی حیثیت رکھتا تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی تو اس کو کوئی شخص قبول کرتا تھا، اس وقت یہ اجنبی تھا، کیونکہ اس کے کے ماننے والے اجنبی بن کے رہ گئے تھے۔ ان کی تعداد بھی کم تھی اور قوت بھی‘ جب کہ ان مخالفین تعداد میں زیادہ،قوت میں برتر اور مسلمانوں پرمسلط تھے، حتیٰ کہ بعض حضژات نے اپنے دین کے فتنوں سے بچانے اور خود ظلم واستبداد اور تکلیف وتشدد سے بچنے کیلئے حبشہ کی طرف ہجرت کر لی۔ خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت تکلیفیں برداشت کیں اور آخر کار اللہ کے حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت فرماگئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امید پر وطن چھوڑا تھا کہ اللہ تعالیٰ دعوت کے کام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کرنے والے اور اسلام کی نصرت کے لئے، آپ کا ساتھ دینے والے افراد مہیا فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمنا پوری کی‘ آپ کی مدد فرمائی اور آپ کے لشکر کو قوت بخشی‘ اس طرح اسلام کی سلطنت قائم ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے کفر کی بات پست اور اپنے دین کی بت بلند فرمادی اور اللہ تعالیٰ غالب ہے، حکمت والا ہے اور غلبہ وعزت وشوکت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے رسول اور
Flag Counter