Maktaba Wahhabi

85 - 326
شریعت یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ ذرائع کاحکم وہی ہوتا ہے جو مقصود اصلی کا حکم ہے۔ اگرمقصد ایسا ہے جس کا حصول واجب ہے تو اس کے لئے مناسب ذرائع اختیار کرنا بھی واجب ہوگا۔ اگر مقصد ایسا ہے جس کا حصول شرعاًحرام ہے تو ا سکا ذریعہ بھی حرام ہوگا۔ اس لئے عزت افزائی سے کوئی مقصد حاصل کنا پیش نظر نہ ہو اور عزت افزائی نہ کرنے سے عزت افزائی کرنے والے کوئی دینی‘ جانی‘ مالی یا آبرو کے نقصان پہنچنے کا کوئی خطرہ نہ ہو تو یہ بالکل جائز نہیں اگر کوئی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو تو جائز ہے۔ باقی رہا حرام چیزوں مثلاً شریا یا خنزیر کے گوشت سے مہمان کی تواضع کرنا تو یہ جائز نہیں، کیونکہ مہمان کی اس طرح خدمت کرنے سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی‘ کافروں کی اطاعت اور اللہ کے حق پر ان کے حق کو ترجیح دینا لازم آتا ہے۔ مسلمان کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رہے اور گناہ اور ظلم کے کسی کام میں دوسروں کی مدد نہ کرے۔ غیر مسلم ممالک میں اسلام کے احکام پر ثابت قدمی سے عمل کرنے سے بہت عظیم فوائد حاصل ہوتے ہیں اور اس طرح ایک شخص صرف زبانی طور پرہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی تبلیغ کرنے والا بن سکتا ہے۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز ٭٭٭ فتویٰ (۷۸۰۷) مختلف مذہب کو ایک دوسرے کے قریب کرنا سوال کیا مختلف مذاہب (اسلام‘ مسیحیت او ریہودیت وغیرہ) کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش اسلامی اور شرعی کوشش ہے ؟ کیا ایک سچے مسلمان کیلئے اس کیطرف دوسروں کو بلانا اور اس کی تحریک کی مضبوطی کے لئے کام کرنا جائز ہے؟ میں نے سنا ہے کہ جامعہ ازہر اور دیگر اسلامی اداروں میں بھی اس قسم کا کام ہوتاہے۔ اس کے علاوہ کیا اہل سنت والجماعت اور مختلف شیعہ فرقوں، درزیہ،اسماعیلیہ اور نصیریہ وغیرہ کو ایک دوسرے سے قریب لانے کی تحریک سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ کیا اس قسم کا ملاپ ممکن بھی ہے؟ ان میں سے اکثر بلکہ سبھی فرقے ایسے عقائد رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی اور اہل اسلام اور اہل سنت سے دشمنی پر مبنی ہیں۔ کیا اس قسم کا تقارب اور ملاپ شرعاً جائز ہے؟ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ آلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: (۱) ایمان کے جو بنیادی ارکان اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں پر نازل کی ہوئی کتابوں تورات‘ انجیل‘ زبور اور قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں اور جن کی دعوت ابراہیم علیہ السلام ‘ موسیٰ علیہ السلام اور دیگر نبیوں اور رسولوں نے دی ہے، وہ یکساں ہیں۔ ان میں سے جو نبی مبعوث ہوا اس نے اپنے بعدآنے والے کی بشارت دی اور جو بعد میں آیا اس نے اپنے سے پہلے آنے والے کی تصدیق اور اس کی عظمت وشان بیان کی۔ اگرچہ حالات‘ زمانے اور بندوں کی مصلحت کے تقاضوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کی حکمت‘ عدل اور رحمت کے پیش نظر فروعی مسائل میں تبدیلی آتی رہی‘ لیکن بنیادی مسائل ہمیشہ یکساں رہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْر﴾ (البقرۃ۲؍۲۸۵)
Flag Counter