Maktaba Wahhabi

103 - 326
بِمُصْرِخِکُمْ وَ مَآ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ (ابراہیم ۱۴؍۲۲) ’’جب معاملہ کا فیصلہ ہوجائے گا شیطان کہے گا’’بے شک اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا اور پھر وعدہ خلافی کی ۔ میرا تم پرکوئی زور نہیں تھا مگر میں نے تمہیں (گمراہی کی طرف) بلایا، تم نے میری بات مان لی۔ تو (اب) مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ کو ملامت کرو۔ میں تمہیں مصیبت سے چھڑا سکتا ہوں نہ تم مجھے چھڑا سکتے ہو۔ اس سے پہلے (دنیا میں) تم جو مجھے (اللہ کا) شریک بناتے رہو ہو(کہ اللہ کے احکام کو چھوڑ کر میری باتیں مانتے رہے ہو)‘ میں اس کا انکار کرتا ہوں۔ بے شک ظالموں ہی کیلئے اذیت ناک سزا ہے۔‘‘ انہوں نے شیطان کے وعدے کو سچ مان لیا تھا، شیطان نے ان کے سامنے جھوٹ کو سچ کے رنگ میں پیش کیا اور شرک جیسے گھناؤنے جرم کو خوبصورت بنا کر پیش کیا اور وہ اس کے پیچھے لگ گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں اس معاملے میں معذور قرار نہیں دیا۔ کیونکہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر اس شخص کے لئے عظیم ثواب کا سچا وعدہ موجود تھا جو اس وعدے کی تصدیق کرکے اس کی شریعت قبول کرلے اور اس کے مطابق سیدھے راستے پر گامزن ہوجائے۔ جن علاقوں میں مسلمانو ں کی کثیر تعداد موجو دہے، ان کے حالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کے رہنے والوں کو دوگروہ اپنی اپنی طرف کھینچے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک گروہ طرح طرح کی شرکیہ اور غیر شرکیہ بدعات کی طرف بلارہا ہے۔ وہ لوگوں کو دھوکا دینے اور اپنی بدعت کو عام کرنے کیلئے ضعیف حدیثوں اور عجیب وغریب قصے کہانیاں کا سہارا لیتا ہے اور انہیں دلکش انداز سے بیان کرکے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ دوسرا گروہ وہ حق اور ہدایت کیطرف بلاتا ہے اور اس کے بارے میں کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دلائل پیش کرتا ہے اور فریق مخالف کے دعوؤں کی غلطی اور فریب کو واضح کرتا ہے۔ اس فریق کی افرادی تعداد کم ہی ہو۔ کیونکہ حق بیان کرنے میں دلیل کا اعتبار ہوتا ہے کثرت تعداد کا نہیں۔ جو شخص سمجھ بوجھ رکھتا ہے اور اس قسم کے علاقے میں رہائش پذیر ہے، وہ اہل حق کی باتیں سن کر حق کو پہچان سکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ تلاش حق کی کوشش کرے، خواہشات نفسانی اور عصبیت سے بچ کر رہے، دولت مندوں کی دولت اور سرداروں کی سرداری دیکھ کر دھوکہ نہ کھائے، اس کے غوروفکر کا معیار درست ہو، عقل وفہم سے دست بردار نہ ہوچکا ہو۔ یعنی ان لوگوں میں شامل نہ ہو جن کی کیفیت ان آیات مبارکہ میں بیان ہوئی ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَعَنَ الْکٰفِرِیْنَ وَ اَعَدَّ لَہُمْ سَعِیْرًا٭خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا ٭یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْہُہُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰہَ وَ اَطَعْنَا الرَّسُوْلَا٭وَ قَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ کُبَرَآئَ نَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا ٭رَبَّنَآ اٰتِہِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَ الْعَنْہُمْ لَعْنًا کَبِیْرًا﴾ (الاحزاب۳۳؍۶۴۔۶۸) ’’اللہ نے کافروں کو یقیناً دھتکار دیا ہے او ران کیلئے بھڑکتی آگ (جہنم) تیار کی ہے، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ انہیں کوئی دوست ملے گانہ مدد گار۔ جس دن آگ میں ان کے چہرے ادھر ادھر (الٹ پلٹ) کئے جائیں گے۔ (اس دن) وہ کہیں گے ’’کاش! ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور رسول کی اطاعت کی ہوتی! کہیں گے! ’’اے ہمارے مالک! ہم نے اپنے سرداروں اور بزرگوں کی اطاعت کی تو انہوں نے ہمیں راہ راست سے بے راہ کر
Flag Counter