Maktaba Wahhabi

102 - 326
﴿وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا﴾ (اسراء۱۷؍۱۵) ’’اور ہم عذاب نہیں کرتی حتی کہ رسول بھیج دیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَ مَنْ بَلَغَ﴾ (الانعام۶؍۱۹) ’’(اے نبی! آپ فرمادیں) میری طرف یہ قرآن وحی کے ذریعے بھیجا گیا ہے تاکہ اس کے ساتھ میں تم کو بھی (اللہ کے عذاب سے) ڈراؤں اور (ان کو بھی) جن تک یہ (پیغام) پہنچے۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے یہ حدیث مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لاَیَسْمَعُ بِی اَحَدٌ مِنْ ھَذِہِ الاُمَّۃِ یَھُودِیٌّ وَلاَ نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوْتُ وَلَمْ یُوْمِنْ بِالَّذِی أُرْسَلَتُ بِہِ أِلاَّ کَانَ مِنْ أَصْحاَبِ النَّارِ) ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے۔ اس امت کا کوئی یہودی یا عیسائی میرے بارے میں سن لے (یعنی اسے معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے)پھر اس (دین) پر ایمان لائے بغیر مرجائے جو(دین) مجھے دے کر بھیجا گیا ہے تو وہ ضرور جہنمی ہوگا۔‘‘[1] اس حدیث کو امام مسلم علیہ السلام نے روایت کیا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی آیات اوراحادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤاخذہ تبھی ہوسکتا ہے جب کسی کو وضاحت سے خبردی جاچکی ہو اور اس مپر حجت قائم ہوچکی ہو۔ جو شخص کسی ایسے ملک میں رہتا ہے جہاں وہ اسلام کی دعوتکے متعلق سنتا ہے، پھر وہ ایمان نہیں لاتا اور نہ اہل حق سے مل کر حق معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے کہ اسے دعوت پہنچی ہو اور وہ پھر بھی کفر پر اڑا رہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی‘ بیان کردہ مذکورہ بالاحدیث اس مسئلہ کی تائید میں پیش کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کے لئے موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا وہ قصہ بھی دلیل بن سکتا ہے جب سامری نے انہیں گمراہ کر دیا تھا اور وہ بچھڑا پوجنے لگے تھے۔ حالانکہ موسی علیہ السلام ‘ اللہ سے ہم کلام ہونے کے لئے جاتے وقت اپنے پیچھے حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنا نائب بنا کر چھوڑ گئے تھے۔ جب ہارون علیہ السلام نے انہیں بچھڑے کی پوجا سے منع کیا تو انہوں نے کہا: ﴿قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْہِ عٰکِفِیْنَ حتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰی﴾ (طہٰ۲۰؍۹۱) ’’ہم تو اسی پر جمے بیٹھے رہیں گے حتیٰ کہ موسیٰ واپس ہمارے پاس آجائے۔‘‘ انہو ں نے شرک کی طرف بلانے والے کی بات مان لی اور توحید کی دعوت دینے والے کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شرک اور دھوکے کی بات مان لینے میں معذور قرار نہیں دیا کیونکہ توحید کی دعوت موجو د تھی اور موسی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید پر بھی کوئی طویل زمانہ نہیں گزرا تھا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کے جہنمیوں سے جھگڑے اور شیطان کے ان سے اظہار برائت کا واقعہ بیان کیا ہے، اس سے بھی مذکورہ بالاموقف کی تائید ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَ قَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ وَ مَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَ لُوْمُوْٓا اَنْفُسَکُمْ مَآ اَنَا
Flag Counter