Maktaba Wahhabi

359 - 366
پیروں فقیروں نے موقع تا کا تحریف معنوی کے استاد میدان میں آ گئے، تو اس کی تفسیری جدلوں میں یہ رنگ بھرا کہ دنیا میں کامیاب وسیلہ نہ صرف پیر فقیر ہیں انہیں نذرو نیاز دے کر ہر کام میں کامرانی اور آخرت میں رہائی پائی جا سکتی ہے۔ جہاد کتنی غلط گمراہ کن اور ملت کش ہے۔ یہ تفسیر جسے ملت دشمن ملا و پیر پھیلائے ہوئے ہیں ، جذبہ جہاد جو دراصل روح ہے۔ انسان کے حقیقی نصب العین کی تکمیل و توسیع کے لیے مخلصانہ اور جانبازانہ سعی و کوشش کی، اس روح کو کمزور بنا کر قیصر و کسریٰ کے تاج و تخت کو ٹھوکریں مارنے والے اور آگ سے کھیلنے والی قوم کے جانباز سپاہیوں کو کاغذی سفینوں پر بٹھا کر توسل کے منجدھار میں کس طرح دھکیل دیا گیا ہے جبین وقت پر یہ ابھری ہوئی حقیقت ہر وقت پڑھی جا سکتی ہے کہ قوم کے دلوں سے جہاد کا ولولہ سرد پڑ جانے کے بعد ان کا اجتماعی نشو ارتقاکیا گیا، پھر وہ شوکت و عظمت کے تخت پر نہیں بیٹھ سکی، کیونکہ: حیات جاوداں اندر ستیز است اس با عزت زندگی کے تخت سے اتارنے میں گمراہ کن اور بدنیت رہنماؤں نے کہاں کہاں تک صحرا نور دی کی ہے اور کیا کیا پاپڑ بیلے ہیں ۔ ﴿فَاَیْنَ تَذْہَبُوْنَ﴾ قرآن کدھر لے جانا چاہتا ہے اور یہ لوگ قوم کو کدھر لے جا رہے ہیں ، عمل صالح کے بازو توڑ کر اغیار کے توسل کے پروں پر صرف آسمان تخیل پر پرواز کی جا سکتی ہے۔ عالم حقائق میں نہیں ، قرآن نے بے عملی کے درخت کی جڑیں کاٹ دی ہیں تاکہ اس کی ٹہنیوں پر کوئی نادان تکیہ نہ کر سکے، اس آیت پر غور کیجئے: ﴿وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِِنسَانِ اِِلَّا مَا سَعٰی﴾ (النجم: ۳۹) ’’انسان کو خود اس کا اپنا ہی عمل کام آئے گا۔‘‘ جسے وہ دنیا میں مرتب کرتا رہا، پھر اس کے بعد اس کا چھوڑا ہوا علم نافع اور اولاد صالح جو کہ اسی کا عمل ہے اسے فائدہ پہنچا سکتے ہیں ۔ اس کے بغیر کسی دوسرے کا عمل کسی کے ہر گز کام نہ آ سکے گا اس آیت نے اس قسم کی تمام غلط فہمیوں کو دور کر دیا ہے کہ کوئی شخص دیرانہ
Flag Counter