Maktaba Wahhabi

283 - 366
سخت نفرت و اکراہ کا اظہار کرتا ہے۔ قرآن و حدیث کی تعلیم کا خلاصہ یہی ہے کہ زندگی کے ہر مرحلہ پر حسن و اعتدال کی کہکشاں چمکتی رہے۔ ایسا دین قبروں جیسے بے محل مصرف و تکبر و بڑائی کے مظاہروں کو کیونکر برداشت کر سکتا ہے۔ عام معاشرے کی معاشی اور تمدنی حالت میں جب تک یکساں نہ ہو جائے کسی ایک فرد کی منفرد طرز رہائش و معاش سے جہاں رشک و رقابت کے فاسد جذبات پیدا ہو کر عوامی ذہن کو مادیاتی میلان کی طرف زیادہ جھکا دیتے ہیں ، وہاں احساس کمتری کا جذبہ بھی اخلاقی اور روحانی تزکیہ و ار تقا میں بری طرح اٹکنے لگتا ہے، اسلام مادیات کے رجحان دبانا نہیں چاہتا بلکہ حد اعتدال میں رکھنا چاہتا ہے تاکہ مادی اور اخلاقی زندگی کہیں بھی غیر متوازن ہو کر شاہراہ ارتقا سے بھٹک نہ سکے، اس قسم کی نا ہمواری و بے چینی پیدا کرنے والی طاقت خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی اسلام نے اسے پسندیدہ نظروں سے کبھی نہیں دیکھا۔ کیا اس قسم کی توازن گیر تعلیم و تربیت کسی دوسرے نظام میں پائی جاتی ہے، اگر نہیں تو پھر ایسے عدل و بردوش اور اعتدال پسند دین کو چھوڑ کر انسانیت کہیں بھی مطمئن اور شاد کام نہیں ہو سکتی۔ بھولی بھالی امت پر ان لوگوں کا بڑا ہی احسان ہوتا اگر یہ گنبد سازی اور پختہ قبریں بنانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کرتے کہ اس سے آخر صاحب قبر کو فائدہ کیا پہنچتا ہے، ظاہر کی چونے گچ چار دیواری اور قبہ سازی سے میت کو اگر رائی بھر بھی ثواب و فیض یا آرام و راحت پہنچتی تو نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم جو دین کامل لانے کے مدعی ہیں ، کبھی اس شعبہ کو نا مکمل چھوڑ کر نہ جاتے، کہیں کسی امام و عالم کی کتاب سے معلوم نہیں ہوا کہ پختہ قبریں بنانے یا ان پر مزارات تعمیر کرنے سے مردوں کو کوئی روحانی یا جسمانی فیض و آرام پہنچتا ہے اور نہ پختہ قبریں مغفرت و نجات کا سبب ہو سکتی ہیں ۔ لہٰذا یہ فعل صرف اسراف ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی بھی ہے جس کی سزا سے یہ کہہ کر بچا نہیں جا سکتا کہ یہ کام عوامی رواج کے ماتحت سر انجام دیا گیا ہے۔ یا یہ کام مرنے والے کی خوشنودی کے لیے کیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی پر دنیا کے کسی محبوب سے محبوب کی خوشنودی کو ترجیح دینا
Flag Counter