پھر یہ علمائے سوء عوام کو دھوکا دیتے ہیں اور دین کے نام پر ان کے ساتھ فریب کرتے ہیں اور ان کے سامنے باطل کو حق اور بدعت کو سنت بنا کر پیش کرتے ہیں ، کیونکہ ان محفلوں میں ان کو لذیز کھانے ملتے ہیں ۔ کتنی جسارت کے ساتھ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ محفل میلاد ادلۂ عقلیہ و نقلیہ و اجتماعیہ سے مشروع ہے اور اس کو جمعہ اور عید کے لیے لوگوں کے اجتماع پر قیاس کرتے ہیں اور یوم عاشوراء کو ’’صوم النبی‘‘ قرار دیتے ہیں ۔ جس دن اللہ نے حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو نجات دی تھی اور اس کو محفل نعمت سے تشبیہ دیتے ہیں ، اور دو شنبہ کے روزہ کو جس دن آپ پیدا ہوئے تھے ’’محفل نعمت‘‘ قرار دیتے ہیں ۔
تعجب ہے کہ یہ محفل نعمت کب مشروع ہوئی، اور کس کتاب میں اس نے اس کو دیکھا ہے اور کون عالم اس کا قائل ہے اور محفل قوم کے اجتماع کو کہتے ہیں اور یہ عاشورہ اور دو شنبہ کے روزہ کو محفل سے کیا تعلق؟ کیا اس مصنف نے خواب میں یہ کتاب لکھی ہے جس کو عقل و فکر سے کوئی واسطہ نہیں ۔ جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے:
﴿وَجَعَلْنَا لَہُمْ سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْئِدَۃً فَمَا اَغْنٰی عَنْہُمْ سَمْعُہُمْ وَلَا اَبْصَارُہُمْ وَلَا اَفْئِدَتُہُمْ مِّنْ شَیْئٍ اِِذْ کَانُوْا یَجْحَدُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ﴾
(الاحقاف: ۲۶)
’’اور ہم نے ان کو کان اور آنکھ اور دل دیے تھے لیکن چوں کہ وہ آیات الٰہیہ کا انکار کرتے تھے اس لیے یہ ان کے کان، ان کے کام آئے نہ ان کی آنکھیں نہ اُن کے دل۔‘‘
جو قول بلا دلیل ہوا اس کو ہر شخص رد کر سکتا ہے، لیکن عام آدمی اس قسم کی باتوں سے دھوکا کھا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ قرآن سے مشروع ہے، خصوصاً جب کہنے والا اس کو اچھے الفاظ میں ملمع کر کے کہے تو عوام اور ضعیف العقل لوگوں میں اس کی صحت راسخ ہو جاتی ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا:
|