Maktaba Wahhabi

676 - 868
اور ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے مجلہ "المسلمون" میں آنجناب کا فتویٰ دیکھا ہے کہ تصویر وہی حرام ہے جو مجسم ہو،دوسری حرام نہیں ہے۔آپ سے امید ہے کہ آپ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔وجزاکم اللّٰہ خیرا جواب:جس نے ہماری طرف یہ بات نسبت کی ہے کہ تصویر صرف وہی حرام ہے دوسری حرام نہیں ہے،اس نے ہم پر جھوٹ بولا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ جس لباس پر تصویر ہو اس کا پہننا جائز نہیں ہے خواہ وہ چھوٹے بچوں کے کپڑے ہوں یا بڑوں کے،اور یادداشت کے طور پر تصویریں سنبھال کے رکھنا بھی جائز نہیں ہے،سوائے خاص ضرورت کے،مثلا وثیقہ شہریت (تابعیہ) یا کوئی لائسنس وغیرہ۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:آج کل ہمیں ایک بڑی اہم بحث کا سامنا ہے،یعنی چمڑے کی جیکٹ پہننا۔بعض بھائی کہتے ہیں کہ یہ عموما خنزیر سے بنتی ہے۔اس صورت میں ان کے پہننے کا کیا حکم ہے؟ کیا دینی لحاظ سے یہ جائز ہو سکتی ہیں؟ بعض دینی کتب مثلا علامہ قرضاوی کی " الحلال والحرام " یا " الدين على المذاهب الاربعة " وغیرہ میں اس کا ذکر تو کیا گیا ہے مگر وضاحت سے کچھ نہیں لکھا ہے؟ جواب:صحیح احادیث میں نبی علیہ السلام کا یہ فرمان ثابت ہے کہ: " إذا دبغ الجلد فقد طهر" "جب چمڑے کو رنگ دیا جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔"[1] اور فرمایا: "دبغ جلد الميت طهورها" "مردار جانور کے چمڑے کا رنگ دیا جانا اس کی پاکیزگی اور طہارت ہے۔"[2] پھر علماء کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ آیا یہ حدیث تمام قسم کے چمڑوں کو شامل ہے یا صرف ان مردہ جانوروں کے چمڑوں کے ساتھ جو ذبح کرنے سے حلال ہو جاتے ہیں؟ اور اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ جو جانور ذبح سے حلال کیے جاتے ہیں وہ اگر مردہ ہو جاتے ہیں جیسے کہ اونٹ گائے وغیرہ ہیں تو ان کے چمڑے کا استعمال (رنگنے کے بعد) ہر طرح جائز ہے۔علماء کا صحیح تر قول یہی ہے۔اور خنزیر اور کتا وغیرہ جو ذبح سے حلال نہیں ہوتے،ان کے چمڑے رنگنے سے پاک ہونے کے بارے میں اختلاف ہے۔اور زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ اسے استعمال نہ کیا جائے۔نبی علیہ السلام کا قول ہے:
Flag Counter