Maktaba Wahhabi

58 - 868
قسم کے انکار،تحریف یا تاویل کی طرف مائل نہیں ہوئے۔انہوں نے اس قسم کی کوئی بات نہیں کہی کہ یہ دن کس طرح لمبا ہو جائے گا جبکہ یہ اپنے مدار میں اپنے معروف انداز میں طلوع و غروب ہوتا ہے اس میں تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔یا یہ مفہوم نہیں لیا کہ یہ دن اپنی مشقت اور ہولناکی کی وجہ سے اس قدر لمبا محسوس ہو گا جیسے کہ ایک سال ہو۔صحابہ کرام نے ہمارے دور کے نام نہاد مفکرین کی سی کوئی بات نہیں کی،بلکہ انہوں نے بغیر کسی تحریف یا تاویل کے تسلیم کیا کہ یہ دن حقیقت میں بارہ ہی ماہ کا ہو گا اور مومن کی شان بھی یہی ہے کہ غیبی امور میں جو بات اللہ اور اس کے رسول نے بتائی ہوتی ہے اسے تسلیم و قبول کرتا ہے اگرچہ عقل اسے کتنا ہی محال جانے۔لیکن ضروری ہے کہ آپ یقین کریں کہ اللہ اور اس کے رسول کی خبر کسی طرح عقلی طور پر محال نہیں ہو سکتی۔یہ ضرور ہے کہ عقل کا دائرہ چونکہ محدود اور مختصر ہے اور حقائق کا کامل طور پر ادراک نہیں کر سکتی ہے تو ان محیر العقول امور کا انکار کر دیتی ہے۔ مختصرا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس دجال کا پہلا دن ایک سال کا ہو گا۔جب یہ حدیث رسول ان بعد میں آنے والوں کے سامنے آتی ہے جو مدعی ہیں کہ ہم بڑے عقل مند ہیں تو کہتے ہیں کہ اس دن کی لمبائی مجازی ہے اس لیے کہ اس میں بے انتہا اذیت اور مشقت ہو گی تو اسے ایک سال کے برابر کہہ دیا گیا ہے کیونکہ فرحت و شادمانی کے دن بڑے مختصر اور دکھ اور تکلیف کے دن بڑے لمبے محسوس ہوتے ہیں۔مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے طبعی صفا اور ایمان میں تسلیم و رضا کی بنا پر فورا یہ بات قبول کر لی (کوئی انکار پیش نہیں کیا) اور زبان حال سے کہا کہ بلاشبہ وہ ذات باری تعالیٰ جو سورج کی ایک گردش کو ایک دن رات میں چوبیس گھنٹے میں پورا کرتا ہے عین ممکن ہے کہ وہ اس کی گردش کو بارہ ماہ تک کے لیے لمبا کر دے کیونکہ خالق عزوجل وہی ہے جو ہر طرح کی قدرت رکھتا ہے،لہذا انہیں یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔بلکہ فوری طور پر ایک ضروری سوال پوچھ لیا کہ ہم اس دن میں نمازیں کیسے پڑھیں گے؟ کیا ہمیں اس دن میں ایک دن رات کی نمازیں کافی رہیں گی؟ آپ نے فرمایا کہ "نہیں،بلکہ ان کے لیے تم اندازہ کرتے رہنا۔" اگر آپ اس سوال و جواب پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ہمارا یہ دین کس قدر مکمل دین ہے کہ لوگوں کو اپنے دین کی جس کسی بات کی قیامت تک کے لیے ضرورت ہو سکتی ہے وہ اس کے اندر موجود ہے۔اللہ عزوجل نے اصحاب رسول سے کس قدر عظیم اور اہم سوال کروایا جس سے اس دین کا کامل ہونا ثابت ہوا اور یہ کہ یہ اب کسی اور جانب سے تکمیل کا محتاج نہیں ہے۔ اس مسئلے کی اب ان آخری دنوں میں قطب شمالی اور قطب جنوبی میں ضرورت پڑی ہے کہ ان اطراف میں دن رات چھ چھ ماہ کے ہوتے ہیں،تو ان مقامات پر یہ حدیث مبارک ہماری رہنمائی کرتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشکل کے درپیش آنے سے پہلے ہی اس کا جواب دے دیا ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
Flag Counter