Maktaba Wahhabi

525 - 868
ہے،حتیٰ کہ نماز باجماعت کے لیے نہیں نکلتا۔کیا سنت یہی ہے کہ وہ نماز کے لیے نہ جائے؟ جواب:اگر کئی آدمی کسی کنواری سے شادی کرے تو اس کے پاس ابتداء میں سات دن رہے،پھر دوسری بیویوں کے ساتھ تقسیم اور باری شروع کرے اور اگر ثیبہ سے شادی کرے تو اس کے پاس تین دن رہے۔اگر وہ چاہے کہ اس کے ہاں سات دن رہے تو یہ بھی کر سکتا ہے مگر دوسری بیویوں کو بھی اتنا ہی وقت دینا پڑے گا۔ اس مسئلہ میں دلیل حضرت ابو قلابہ کی روایت ہے جو وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ: "سنت یہ ہے کہ جب آدمی کسی ثیبہ پر کنواری سے شادی کرے تو (ابتدا میں) اس کے پاس سات دن رہے،اور پھر تقسیم اور باری شروع کرے۔اور اگر ثیبہ (شوہر دیدہ) سے شادی کرے تو اس کے پاس تین دن رہے۔" [1] اسی طرح سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان سے (ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے) شادی کی تو ان کے پاس تین دن رہے،اور فرمایا: "تم اپنے اہل پر کسی بھی طرح حقیر اور ہلکی نہیں ہو۔اگر تم چاہو تو میں تمہارے ہاں سات دن رہ سکتا ہوں،لیکن پھر دوسری بیویوں کے ہاں بھی سات سات دن ہی [2] رہوں گا۔"[3] اور شادی کرنے والے کے لیے،خواہ وہ کنواری سے شادی کرے یا ثیبہ سے،ہرگز جائز نہیں ہے کہ شادی کے بہانے مسجد میں نماز باجماعت سے پیچھے رہے۔اس خیال کی کوئی دلیل نہیں اور نہ مذکورہ بالا احادیث میں ایسی کوئی بات ہے۔(مجلس افتاء) سوال:کیا شوہر کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنی بیویوں میں اخراجات اور لباس کے بارے میں برابری کرے؟ جواب:صحیح تر بات یہی ہے جسے شیخ الاسلام (امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ) نے اختیار کیا ہے کہ ان امور میں برابری واجب ہے،کیونکہ برابری نہ کرنا ظلم ہے۔اس لیے نہیں کہ اس نے واجب ادا نہیں کیا،بلکہ اس لیے کہ وہ عدل کر سکتا تھا مگر نہیں کیا۔اور اس سے مراد وہ امور ہیں جن کی آدمی طاقت اور قدرت رکھتا ہو،ان ہی میں عدل کرنا واجب ہے۔اور جن پر اسے قدرت نہ ہو وہ واجب نہیں ہیں،مثلا مباشرت اور اس کے توابع۔(عبدالرحمٰن السعدی)
Flag Counter