Maktaba Wahhabi

457 - 868
ہے۔لیکن اگر آپ کے ولی نے اس پر یہ شرط عائد کی ہو کہ وہ بعض امور و معاملات پورے کرنے کے بعد آپ کے ساتھ علیحدہ ہو تو ولی کو یہ حق حاصل ہے،مثلا مکان اور جہیز وغیرہ کا انتظام کرنا۔کیونکہ خلفائے راشدین کے نزدیک "خلوت" سے مراد "دخول" ہی ہے۔(محمد بن عبدالمقصود) سوال:میرا عقد نکاح ہو چکا ہے،اور میرا شوہر جسے ہم ایک فاضل شخصیت سمجھتے ہیں،اس نے مجھ سے کہا ہے کہ عقد ہو جانے کے بعد زوجین میں ملاپ کے حرام ہونے پر کتاب و سنت سے کوئی دلیل نہیں ہے،یہ مسئلہ بس اجتہادی ہے،کیونکہ نبی علیہ السلام کے دور میں یہ صورت نہ ہوتی تھی۔اور علماء میں سے بعض رخصتی کی شرط کرتے ہیں اور بعض نہیں کرتے۔تو اس مسئلے میں حق و صواب کیا ہے؟ اور اس نے مجھ سے یہ بھی کہا ہے کہ اگر میں فوت ہو جاؤں تو میری وارث ہو گی؟ اس بارے میں صحیح کیا ہے؟ جواب:ان تمام مسائل کا مرجع شریعت ہی ہے۔اگر کسی میاں بیوی کا آپس میں جنسی ملاپ نہیں ہوا ہے،تو شوہر کی وفات کی صورت میں عورت اس کی وارث ہو گی،اور اسے باتفاق علماء عدت وفات گزارنی ہو گی۔اور مسئلہ مباشرت (قبل از رخصتی)،تو صحیحین میں یہ حدیث ثابت ہے،حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " إِنَّ أَحَقَّ الشُّرُوطِ أَنْ يُوفَى بِهَا مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ الْفُرُوجَ " "سب شرطوں میں سے اہم ترین شرط جو پوری کیے جانے کے لائق ہے،وہ ہے جس سے تم کوئی عصمت اپنے لیے حلال بناتے ہو۔"[1] اگر پیغام دینے والے سے لڑکی کے ولی نے کہا ہو کہ میں تجھے اپنی بیٹی نکاح کر دیتا ہوں اس شرط پر کہ جب تک تو مکان کا انتظام نہیں کر لیتا تو اس پر داخل نہیں ہو گا۔تو دیکھنا یہ ہے کہ آیایہ شرط صحیح ہے یا باطل۔ظاہر ہے کہ یہ شرط صحیح ہے اور شریعت کہتی ہے کہ سب شرطوں سے بڑھ کر پوری کیے جانے کے لائق وہ شرط ہے جس سے تم نے عصمتوں کو حلال کیا ہو۔اور اب اگر یہ شخص عقد کے بعد یہ کہتا ہے کہ یہ شرط باطل ہے تو اس طرح سے عقد بھی باطل ہو جائے گا۔ اصول فقہ میں شرط کی تعریف یہ ہے جس کے نہ ہونے سے چیز کا عدم لازم آتا ہو،مگر اس کے ہونے
Flag Counter