Maktaba Wahhabi

44 - 868
اللہ تعالیٰ مجھے اور میرے مسلمان بھائیوں کے لیے اس دن کو آسان بنا دے،آمین! ضروری ملاحظہ:۔۔خیال رہے کہ اس قسم کے غیبی امور میں بہت زیادہ گہرائی تک جانا صحیح نہیں ہے۔اس انداز کو "تنطع" کہا گیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:"ہلاک ہوئے تنطع کرنے والے،ہلاک ہوئے تنطع کرنے والے،ہلاک ہوئے تنطع کرنے والے (یعنی بال کی کھال اتارنے والے،مسائل میں بہت زیادہ گہرائی میں جانے والے)۔" [1] مسلمان کا یہی فریضہ ہے کہ اس قسم کے غیبی امور میں ظاہری معانی اختیار کرے اور تسلیم و رضا کا اظہار کرے۔بہت زیادہ گہرائی میں جانا اور عالم آخرت کے امور کو اس دنیا کے معاملات پر قیاس کرنا قطعا صحیح نہیں ہے کیونکہ آخرت کے امور دنیا کے جیسے نہیں ہیں۔صرف لفظی تشبیہ ہے اور حقیقت میں بہت بڑا فرق ہے۔مثلا:جنت میں کھجوریں ہیں،انار ہیں اور ہر طرح طرح کے پھل ہیں،پرندوں کے گوشت،شہد،پانی،دودھ اور شراب وغیرہ بہت کچھ ہے مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴿١٧﴾(السجدہ 32؍17) "کسی جان کو خبر نہیں کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کچھ چھپایا گیا ہے،بدلہ ہے اس کا جو وہ کرتے رہے۔" اور ایک حدیث قدسی میں ہے،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو کسی آنکھ نے دیکھا نہیں،کسی کان نے سنا نہیں بلکہ کسی دل میں ان کی خوبی کا تصور تک نہیں آیا۔[2] غرض یہ کہ ان چیزوں کے نام محض دنیا والے مگر حقیقت میں بہت بڑا فرق ہے۔ایک مسلمان کے لیے یہی قاعدہ ہے نکہ غیبی امور میں ظاہری معنیٰ کو تسلیم کرے اور اس سے آگے بڑھ کر زیادہ گہرائی میں نہ جائے۔یہی وجہ ہے کہ جب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ﴿٥﴾(طہ:20؍5) کی تفسیر پوچھی گئی کہ اللہ تعالیٰ عرش پر کیسے مستوی ہوا؟ تو امام رحمۃ اللہ علیہ کا سر جھک گیا،جسم پر پسینہ آ گیا بلکہ بہنے لگا اور یہ کیفیت اس سوال کی عظمت کی وجہ سے تھی۔پھر انہوں نے سر اٹھایا اور اپنی وہ مشہور بات کہی جو اس قسم کی الٰہی صفات کے بارے میں کسوٹی کا درجہ رکھتی ہے۔انہوں نے فرمایا:"لفظ استواء کے لفظی معنیٰ معلوم و معروف ہیں،اس کی کیفیت ہماری
Flag Counter