Maktaba Wahhabi

350 - 868
روزے رکھنے شروع کر دیے مگر چند دنوں کے بعد اسے پھر خون شروع ہو گیا،تو کیا اسے اس حالت میں روزے چھوڑ دینے چاہییں ؟ اور کیا گزشتہ دنوں کے روزے جو وہ رکھ چکی ہے ان کی قضا بھی اسے دینی ہو گی؟ جواب:اگر نفاس والی کوئی خاتون چالیس دنوں سے پہلے ہی پاک ہو جائے اور روزے رکھنے لگے،اور ان چالیس دنوں کے اندر خون پھر دوبارہ آنے لگے،تو جو روزے اس نے رکھ لیے ہیں وہ صحیح ہوں گے،اور دوبارہ خون جاری ہونے پر اسے نماز روزہ شروع کر دے،خواہ خون آتا بھی رہے۔یہ فاسد خون ہوتا ہے اور اس کا کوئی اعتبار نہیں،البتہ اسے چاہیے کہ ہر نماز کے لیے نیا وضو کیا کرے،حتیٰ کہ خون بالکل رک جائے۔یہ مسئلہ اس طرح ہے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استحاضہ والی عورت کو ارشاد فرمایا تھا۔[1] اور چالیس دن پورے ہونے کے بعد (اگر خون جاری بھی رہے تو) شوہر کو جائز ہے کہ اس سے تمتع کرے۔ہاں اگر یہ خون چالیس دن پورے ہونے کے بعد ان تاریخوں میں آیا ہو جن میں کہ اسے حیض آتا تھا،تو اسے حیض شمار کیا جائے گا اور اسے نماز روزہ ترک کر دینا ہو گا۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:میری بیوی کے ہاں رمضان المبارک سے ہفتہ پہلے ولادت ہوئی،اور رمضان سے پہلے وہ پاک بھی ہو گئی،تو کیا اس کے روزے صحیح ہیں یا اسے ان کی قضا دینی ہو گی؟ اہلیہ کا کہنا ہے کہ اس نے بحالت طہر روزے رکھے ہیں۔ جواب:اگر معاملہ ایسے ہی ہے جیسے کہ بیان ہوا ہے کہ آپ کی اہلیہ رمضان المبارک میں طہر سے تھی اور اس نے روزے رکھے ہیں تو یہ بالکل ٹھیک اور درست ہیں،اس کے ذمے کسی قسم کی کوئی قضا نہیں ہے۔(مجلس افتاء) سوال:ایک خاتون نے رمضان المبارک میں بچے کو جنم دیا،رمضان کے بعد بچے کو دودھ پلانے کی بنا پر وہ روزہ کی قضا نہیں دے سکی،بلکہ اسے حمل ہو گیا،اور اگلے رمضان میں دوسرے بچے کی ولادت ہو گئی،تو کیا ایسی حالت میں جائز ہے کہ قضا کے روزوں کی بجائے رقم تقسیم کر دے؟ جواب:اس عورت پر واجب ہے کہ اپنے چھوڑے ہوئے روزوں کے مطابق روزے رکھے،خواہ دوسرے رمضان کے بعد ہی ہوں،کیونکہ پہلے اور دوسرے رمضان میں وہ عذر کی بنا پر قضا نہیں دے سکی۔اور میں نہیں سمجھتا کہ سردیوں کے موسم میں اگر وہ ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھے تو اسے مشقت ہو گی،اگرچہ وہ اپنے بچے کو دودھ بھی پلا رہی ہو۔اسے چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے،نیکی کے کام میں حرص کرے اور اگلا رمضان آنے سے
Flag Counter