Maktaba Wahhabi

34 - 868
بڑی غلطی کرتے ہیں۔ جب ہم نے یہ کہا کہ "اسلام اللہ تعالیٰ کی مشروع کی ہوئی عبادات بجا لانے کا نام ہے" تو یہ اس بات کو مستلزم ہے کہ آدمی ظاہری اور باطنی طور پر اسی کا مطیع فرمان ہو اور اسی کے لیے سرتسلیم خم کرے اور یہ تعریف دین کی تمام جوانب عقیدہ،قول اور عمل سب کو محیط ہے۔ لیکن اگر اسلام اور ایمان کو اکٹھے ذکر کیا جائے تو اسلام سے ظاہری اعمال مراد ہوتے ہیں،یعنی زبان سے بولنا اور اعضاء سے عمل کرنا اور ایمان سے مراد باطنی اور اعمال قلوب،جسے ہم عقیدہ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس فرق پر یہ آیت کریمہ دلیل ہے: قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَـٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ (الحجرات 49؍14) "دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے،آپ انہیں کہہ دیجیے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم نے تسلیم کر لیا اور مطیع ہو گئے ہیں اور ایمان ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔" سیدنا لوط علیہ السلام کے قصہ میں ہے: فَأَخْرَجْنَا مَن كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴿٣٥﴾فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِينَ﴿٣٦﴾(الذاریات 51؍ 35۔36) "ہم نے ان کی بستی میں سے اہل ایمان کو نکال لیا اور ہم نے اس میں ایک گھر کے علاوہ کسی کو مسلمان نہیں پایا۔" یہاں اہل ایمان اور اہل اسلام میں فرق کیا گیا ہے۔اس بستی میں ظاہری طور پر مسلمان گھرانہ صرف ایک ہی تھا،اور اس میں لوط علیہ السلام کی بیوی بھی تھی جس نے کفر کر کے آپ کی خیانت کی تھی جبکہ درحقیقت یہ کافرہ تھی۔مگر جنہیں نکالا گیا اور انہوں نے نجات پائی وہ خالص مومن تھے اور ایمان ان کے دلوں میں داخل ہو چکا تھا۔ علاوہ ازیں مذکورہ بالا فرق کی دلیل کے،ایک دلیل حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی معروف روایت "حدیث جبریل" بھی ہے۔اس میں ہے کہ جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام اور ایمان کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے اسے اسلام کی تعریف میں ظاہری اعمال بیان فرمائے: "الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ،وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰهِ،وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ،وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ،وَتَصُومَ رَمَضَانَ،وَتَحُجَّ الْبَيْتَ " اور ایمان کے متعلق باطنی امور بیان فرمائے،یعنی
Flag Counter