Maktaba Wahhabi

327 - 868
ہے کہ: میت کی تعزیت و ماتم کی خاطر اجتماع کرنے کو میں مکروہ سمجھتا ہوں،کیونکہ اس سے اہل میت کے لیے ان کا غم غلط ہونے کے بجائے اور تازہ ہوتا ہے،بلکہ ان لوگوں پر مادی بوجھ بھی پڑتا ہے۔حالانکہ اس بارے میں ایک اثر بھی وارد ہے۔حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ "ہم لوگ (صحابہ) اہل میت کے ہاں جمع ہونے اور بعد از دفن کھانے کا اہتمام کرنے کو نیاحہ (نوحہ) میں سے شمار کرتے تھے۔"[1] اور نوحہ کرنا حرام ہے۔جمہور اہل اصول اور اہل حدیث کا یہ قاعدہ ہے کہ صحابہ کا یہ کہنا کہ "ہم شمار کرتے تھے،یا ہم کیا کرتے تھے،یا ہم سمجھا کرتے تھے" وغیرہ الفاظ مرفوع حدیث کا حکم رکھتے ہیں،خواہ بیان کرنے والا اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کی طرف نسبت کرے یا نہ کرے۔جیسے کہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا عورتوں کی طہارت کے سلسلے میں یہ اثر ہے کہ: "طہر شروع ہونے کے بعد ہم زرد پانی آنے کو یا میلے پانی کو کچھ نہ سمجھا کرتی تھیں۔"[2] جناب سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ نماز میں اپنی دائیں کلائی کو بائیں کلائی کے اوپر رکھا کریں۔[3] الغرض ماتمی اجتماعات حرام ہیں۔اور اہل میت کو کیا کرنا چاہیے ؟ اہل علم کہتے ہیں کہ ان لوگوں کو اپنے کاروبار زندگی اور مشاغل میں مشغول ہو جانا چاہیے ۔اور انہیں تعزیت کیسے پیش کی جائے؟ اس سلسلے میں سنت یہ ہے جیسے کہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ غزوۂ موتہ میں ان کے والد جعفر رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو،انہیں ایک ایسی خبر آئی ہے جس نے انہیں مشغول کر دیا ہے۔"[4]
Flag Counter