Maktaba Wahhabi

287 - 868
اور حدیث جبریل میں ہے کہ جبریل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ:ان دو وقتوں کے درمیان وقت ہے۔" اور اللہ عزوجل کا فرمان بھی یہی ہے کہ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا﴿١٠٣﴾(النساء:4؍103) "بلاشبہ نماز اہل ایمان پر اپنے وقت میں فرض کی گئی ہے۔" اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جمع کا یہ فعل ہو ہمارے پیش نظر ہے،جس میں جمع کی کوئی صورت متعین نہیں ہے کہ یہ جمع تقدیم تھی یا تاخیر یا صوری ۔۔اور احتمال سبھی کا ہے،اور حسب قاعدہ جب احتمال آ جائے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے،بالخصوص جبکہ جمع صوری کا قول بھی وارد ہے،جو ان سابقہ احادیث کے موافق ہے،اور یہ بھی واجب ہے کہ نصوص کے درمیان جمع و تطبیق کی صورت نکالنی چاہیے تو ضروری ہے کہ یہی کہا جائے کہ یہ جمع صوری تھی۔ اس لیے کہ یہ جمع شکل و صورت میں ہے،(اور حقیقت میں ہر نماز اپنے وقت میں ادا ہوتی ہے) کیونکہ انسان جب ظہر کو اس کے آخری وقت میں پڑھے گا،تو اتنے میں عصر کا وقت شروع ہو جائے۔اور اگر انسان نے وضو وغیرہ کرنا ہو تو اس سے فارغ ہو کر نماز عصر پڑھے گا۔تو یہ شکل و صورت کے اعتبار سے جمع ہے اور شریعت نے بھی اسے جمع ہی کہا ہے دلیل اس کی یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے استحاضہ والی خاتون حضرت حمنہ بنت حجش رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ: "اگر تجھے یہ طاقت ہو کہ ظہر کو مؤخر اور عصر کو جلدی کر لیا کرے تو ان دونوں کے لیے ایک غسل کر کے ظہر و عصر کو جمع کر کے پڑھ لیا کر۔پھر مغرب کو مؤخر اور عشاء کو جلدی کر لیا کرے تو ان دونوں کے لیے غسل کر لیا کر اور انہیں جمع کر کے پڑھ لیا کر،اور پھر اس طرح کیا کر۔" الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت و کیفیت سے نماز پڑھنے کو "جمع" سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس پر علامہ خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ "اس میں بڑی مشقت ہے اور یہ جمع عذر والوں کے لیے ہے۔اور بقول علامہ موصوف "نمازوں کے اوقات عام لوگ تو کیا،خاص طالب علم کے لیے بھی واضح نہیں ہوتے ہیں۔" جمہور نے ان کے اس اعتراض کا جواب یہ دیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اوقات کے ابتدا و انتہا کی خاص خاص واضح علامتیں بیان فرما دی ہیں جواز کیا تو کیا،عوام الناس کے لیے بھی مخفی نہیں ہیں۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مذکورہ بالا حدیث کے بارے میں یہ بھی کہتے ہیں کہ جب ان سے کہا گیا کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کیا ارادہ فرمایا تھا؟" تو انہوں نے کہا:"آپ یہ چاہتے تھے کہ امت کو حرج نہ ہو (دقت نہ ہو)"۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی اس کے قریب قریب ہے:(لئلا تحرج امتى صنعت ذلك) "تاکہ میری امت کو مشقت نہ ہو،وہ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔" اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کی پیروی کیا کرتے تھے،مثلا دیکھیے حدیث حدیبیہ میں ہے،
Flag Counter